إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
جب تم لوگ (وادی بدر کے مدینہ سے) قریبی کنارے پر تھے، اور وہ لوگ دور والے کنارے پر، اور تجاری قافلہ (ساحل سمندر کی طرف) تم سے نیچے، اور اگر تم دونوں جماعتوں نے پہلے جنگ کا ایک وقت مقرر کیا ہوتا تو وعدہ خلافی کرجاتے، لیکن ایسا اس لیے ہوا تاکہ اللہ ایک معاملے کا فیصلہ (37) کردے جسے بہر حال ہونا تھا تاکہ جو ہلاک ہو وہ روشن دلیل آجانے کے بعد ہلاک ہو، اور جو زندہ رہے وہ روشن دلیل دیکھ لینے کے بعد زندہ رہے، اور بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 42 سے 44) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میدان بدر کا نقشہ اور فریقین کا ایک دوسرے کو اصل تعداد سے کم دکھائی دینا۔ اس سے پہلی آیت میں غزوۂ بدر کے معرکہ کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا دن جس میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان دو اور دو چار کی طرح فرق واضح کردیا گیا۔ غزوۂ بدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ جو مرے وہ دلیل پر مرے اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر زندہ رہے۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کے گھر سے نکلنے کے بارے میں فرمایا کہ آپ کو آپ کے رب نے ہی گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک جماعت اسے پسند نہیں کر رہی تھی۔ (الانفال :6) یہاں بدر کا نقشہ پیش کیا گیا ہے کہ جب تم نے بدر میں مدینہ کی جانب اور کفار نے مکہ کی جانب پڑاؤ ڈالا تھا اور جس قافلہ کے لیے تم نکلے تھے وہ نیچے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے نکل گیا۔ اگر کفار اور تم آپس میں جنگی اصول طے کرتے تو یہ معرکہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ جس طرح تم جنگ کرنے میں مترد دتھے اسی طرح کفار کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ سیرت کی کتب میں تفصیل ہے کہ بدر سے پہلے ابو جہل اور ان کے ساتھیوں کے درمیان اختلاف ہوا، کہ جب قافلہ بچ کر نکل چکا ہے تو اب جنگ کرنے کا کیا مقصد ؟ لیکن ابو جہل کی رائے غالب آئی جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما تھی۔ اس آیت میں اسی اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح غزوہ بدر کی جزیات بیان کی گئی ہیں۔ اس طرح احد، احزاب، فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کی جزیات کی تفصیل بیان نہیں کی گئیں کیونکہ اس معرکہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ ہم نے اس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر رزم آرا کیا تھا 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے ساتھ حق ثابت کرنا چاہتا تھا تاکہ حق، حق اور باطل، باطل ثابت ہوجائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں جو فیصلہ کر رکھا تھا اسے لوگوں کے سامنے آشکار کرنا چاہتا تھا۔ 3۔ ہلاک ہونے والا دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔ دلیل پر مرنے اور دلیل کی بنیاد پر زندہ رہنے کا میرے نزدیک دو معانی ہو سکتے ہیں۔ بدر میں مرنے والے کفار نے اپنی آنکھوں سے اللہ کا وہ وعدہ دیکھ لیا۔ جس کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) مکہ میں انھیں بتایا کرتے تھے کہ تم جتنی چاہو مخالفت کرلو۔ اللہ تعالیٰ دین کو غالب کرکے رہے گا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا گویا کہ دونوں فریق نے حق کی پاسداری اور باطل کی ناپائیداری اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرلی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے وجود کی ایک بنیاد قائم فرمائی خواہ وہ چیز روحانی وجود رکھتی ہو یا مادی۔ انسانی وجود روح اور جسم پر مشتمل ہے۔ انسان کا وجود زمین سے بنا ہے۔ اس کی خوراک بھی زمین سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر اسے مادی خوراک نہ ملے تو وجود لاغر، کمزور یہاں تک کہ مردہ ہوجاتا ہے۔ روح آفاقی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس کی خوراک روحانی یعنی آسمانی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اتارا ہے۔ جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا روح مردہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے حق زندۂ جاوید اور حیات بخش ہے۔ باطل کے لیے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے مردہ اور مردگی کی علامت ہے۔ اس بنا پر ایمان والا زندہ اور کفر والا مردہ ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا حقائق کو نمایاں اور مسلمانوں کو غالب کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (ﷺ) کو خواب میں کفار کی تعداد اصل تعداد سے کم دکھائی۔ آپ نے اسی طرح صحابہ کرام (رض) کے سامنے اپنا خواب بیان فرمایا اور مسلمانوں کی تعداد کفار کو کم دکھائی گئی۔ جس سے فریقین کے حوصلے دوبالا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم کثیر تعداد دکھلا دیتے تو اے مسلمانو ! تم بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں اختلاف سے بچا لیا۔ اسی کا مقصد تھا کہ اللہ وہ کام پورا کردے جو اس کے ہاں ہونا طے پا چکا تھا اور ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے خیالات اور دلوں کے جذبات کو جاننے والا ہے۔ مسائل: 1۔ فریقین کے نہ چاہنے کے باوجود بدر کا معرکہ برپا ہوا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ آشکار کرنا چاہتا تھا۔ 3۔ باطل مردہ اور اس کی دلیل بھی مردہ ہے۔ 4۔ حق زندۂ جاوید اور اس کی دلیل بھی حیات بخش ہے۔ 5۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ تمھارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:187) 2۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اللہ جانتا ہے۔ (النور :41) 3۔ اللہ نے جان لیا جو ان کے دلوں میں ہے۔ (الفتح :18) 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ:7) 5۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال :61) 6۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور :18) 7۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات :16) 8۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ:78)