وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت (35) ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا، اگر تمہارا ایمان (36) اللہ اور اس نصرت و تائید پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا تھا جب حق باطل سے جدا ہوگیا، جب دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اس سورۃ کی ابتدا مال غنیمت کے متعلق ایک سوال سے ہوئی۔ جس کا مختصر جواب یہ دیا گیا کہ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تمھارا کام اپنی اصلاح کرنا اور اللہ، اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنا ہے یہاں اس کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے۔ مال غنیمت کے حقدار لوگوں کی تفصیلات بتانے سے پہلے ﴿واعلموا﴾ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں کسی بات سے آگاہ کرنے کے ساتھ انتباہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی اچھی طرح جان لو کہ جو تمھیں بتلایا جا رہا ہے یہ معمولی مسئلہ نہیں حقیقت ہے کہ یہ مال اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس لیے کہ وہی اسے حلال کرنے والا اور تمھیں فتح دینے والا ہے۔ مال غنیمت کے حق داروں میں رسول محترم (ﷺ) کا نام پہلے اس لیے لیا کہ پہلے انبیاء اور ان کی امتوں پر یہ مال حرام تھا۔ پھر یاد رکھو کہ رسول محترم کی قیادت اور محنت کی و جہ سے تم اس قابل ہوئے ہو۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کی خصوصیت ہے کہ ان کے لیے غنیمت کا مال جائز قرار دیا گیا جس کی تقسیم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے مال غنیمت میں پانچواں حصہ ہے جس کا مفہوم ائمہ کرام (رض) نے یہ متعین کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حصہ سے مراد بیت اللہ کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنا ہے کچھ مفسرین کا خیال ہے اللہ تعالیٰ کا نام صرف تبرک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میرا ذاتی نقطہ نظریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام اس لیے لیا ہے تاکہ غازیوں کو احساس ہوجائے کہ یہ مال ہماری بہادری اور جواں مردی کا نتیجہ نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس لیے اس کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے جس نے اس کی تقسیم اس طرح فرمائی ہے کہ پہلا حصہ رسول (ﷺ) کا ہے وہ جہاں چاہیں اسے خرچ فرمائیں۔ جس کے بارے میں آپ فرمایا کرتے تھے میر احصہ بھی مسلمانوں کے لیے ہے جسے آپ مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات پر خرچ کیا کرتے تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر (رض) جب خلیفہ بنے تو انھوں نے فرمایا کہ میں امت کا ذمہ دار ہونے کی بناء پر اس سے اتنا ہی اپنی ذات پر خرچ کروں گا۔ جتنا یتیم کی کفالت کرنے والا اس کے مال سے اپنی ذات پر خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ گویا کہ خلیفۂ وقت اپنے اہل و عیال پر اس سے بڑھ کر خرچ نہیں کرسکتا۔ جہاں تک رسول کریم (ﷺ) کو اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے بارے میں آپ کی سنت یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ (رض) نے آپ سے بیت المال میں ایک کنیز لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ ابھی مستحق باقی ہیں۔ اس لیے میں آپ کو کنیز دینے کے بجائے وظیفہ بتلاتا ہوں کہ آپ 33مرتبہ سبحان اللہ، 33مرتبہ الحمد للہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر۔ رات سونے سے پہلے پڑھا کرو۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا سربراہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو کن حالات میں کس قدر مال غنیمت دے سکتا ہے۔ اس کے بعد خمس مال میں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حصہ رکھا گیا۔ اس تقسیم پر عمل کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ ہی نے نبی کریم (ﷺ) پر بدر کے دن اپنی خاص مدد نازل فرمائی تھی جب دو جماعتیں آپس میں برسرِپیکار ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اختیار رکھنے والا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ وَلِصَاحِبِہٖ سَہْمًا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب سہام الفرس] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے گھوڑے والے کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر فرمایا۔“ (عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃ)ِ[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) أُحِلَّتْ لَکُمُ الْغَنَائِمُ ] ” حضرت عروہ البارقی (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر لکھ دی گئی ہے اجر اور غنیمت کی صورت میں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ إِذَا أَصَابَ غَنِیمَۃً أَمَرَ بلاَلاً فَنَادَی فِی النَّاسِ فَیَجِیئُونَ بِغَنَائِمِہِمْ فَیُخَمِّسُہُ وَیُقَسِّمُہُ فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِکَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ ہَذَا فیمَا کُنَّا أَصَبْنَاہُ مِنَ الْغَنِیمَۃِفَقَالَ أَسَمِعْتَ بلاَلاً یُنَادِی ثَلاَثًاقَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تَجِیءَ بِہِ فَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ کُنْ أَنْتَ تَجِیءُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَلَنْ أَقْبَلَہُ عَنْکَ ) [ رواہ ابوداوٗد : باب فِی الْغُلُولِ إِذَا کَانَ یَسِیرًا یَتْرُکُہُ الإِمَامُ وَلاَ یُحَرِّقُ رَحْلَہُ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس جب مال غنیمت پہنچتا آپ بلال کو حکم دیتے کہ لوگوں میں اعلان کرے تو صحابہ کرام مال غنیمت ایک جگہ جمع کرتے اس مال میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی مال تقسیم کردیا جاتا۔ ایک دن ایک آدمی مال کی تقسیم کے بعد بالوں کی ایک گھچی لیکر آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ مال غنیمت میں سے ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے بلال کو اعلان کرتے ہوئے سنا تھا آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ اس نے عرض کی جی ہاں آپ نے فرمایا پھر تو اسے کیوں نہیں لیکر آیا۔ اس نے عذر پیش کیا۔ آپ نے فرمایا اسے اپنے پاس رکھو اور قیامت کو لیکر آنا اب ہرگز میں تجھ سے قبول نہیں کرونگا۔“ مسائل : 1۔ مال غنیمت میں اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ 4۔ بدر کا دن حق و باطل میں فرق کردینے والا دن تھا۔ 5۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) اللہ کے بندے تھے۔ ٦۔ مال غنیمت میں یتیموں اور مساکین کا بھی حصہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : فرقان کیا ہے : 1۔ اگر تم عقل مند ہو تو بتاؤ کونسا فریق امن کا زیادہ حق دار ہے۔ (الانعام :81) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ:53) 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوگوں کے لیے ہدایت اور حق و باطل میں فرق کردینے والی کتاب بنا کر نازل کیا ہے۔ (البقرۃ:185) 4۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے تورات و انجیل کو لوگوں کی ہدایت کے لیے اور حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب بنا کر نازل فرمایا۔ (آل عمران :3) 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی اور روشن کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء :48) 6۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں۔ (الفرقان :1) 7۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر دو جماعتوں کے ٹکراؤ میں فرق واضح کردیا۔ (الانفال :41)