سورة الانفال - آیت 39

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (مسلمانو !) تم کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (33) کا سدباب ہوجائے اور مکمل اطاعت و بندگی اللہ کے لیے ہوجائے، پس اگر وہ لوگ باز آجائیں تو بے شک اللہ ان کے کرتوتوں کو خوب دیکھ رہا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 39 سے 40) ربط کلام : جو کفار اپنی روش سے باز نہیں آتے ان کے خلاف جہاد کا حکم ہے۔ اسلام میں قتال فی سبیل اللہ کا تصور یہ ہے کہ اگر کفار بقائے باہمی کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہیں تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن پسند کفار کے ساتھ قتال کرنے سے باز رہیں۔ بشرطیکہ اہل کفر تبلیغ دین میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسلام کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ لوگوں تک حق پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اگر لوگ اپنی خوشی سے حلقۂ اسلام میں داخل ہونا چاہیں تو ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ لیکن کفار دین اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اگر وہ اپنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو پھر مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کریں کہ جس سے کفار کو ان کے مذموم عزائم سے روکا جا سکے کیونکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنا یا اسلامی مملکت کے خلاف سازشیں کرنا ایک فتنہ ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس بناء پر مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجاؤ اور اس وقت تک قتال فی سبیل اللہ سے پیچھے نہ ہٹوجب تک دین کا غلبہ نہ ہوجائے۔ اگر کفار اپنی سازشوں سے بازآجائیں اور بقائے باہمی کے اصول پر امن سے رہنا چاہیں تو پھر ان سے تعارض کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر وہ باز نہیں آتے تو دین کے غلبہ تک جہاد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ کیونکہ اسلام کے نفاذ سے سب کو امن و امان اور سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کفار سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ ان کے کردار کو دیکھ رہا ہے۔ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمھارا والی اور خیر خواہ ہے۔ اس سے بہتر تمھارا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں ہوسکتا ہے۔ یعنی جس کی اللہ تعالیٰ خیر خواہی اور دستگیری فرمائے وہی کامیاب اور سرفراز ہوگا۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ فتنہ کے خاتمہ تک قتال فی سبیل اللہ کرنا چاہیے۔ 2۔ دین کا غلبہ ہونا ضروری ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا خیر خواہ اور بہترین مدد کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ رسول کریم (ﷺ) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ:10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 5۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129)