إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
بے شک اہل کفر اپنی دولت (30) اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روک دیں، پس وہ اسے خرچ کریں گے، پھر وہ ان کی حسرت کا سبب بن جائے گی، پھر وہ مغلوب بن جائیں گے، اور اہل کفر جہنم کے پاس جمع کیے جائیں گے
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کو ان کے کردار کا آئینہ دکھاتے ہوئے یہ احساس دلایا گیا ہے عنقریب تمھیں اپنے کیے پر حسرت و افسوس ہوگا۔ کفار صرف زبانی اور جسمانی طور پر ہی اللہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ وہ اس کے لیے اپنا مال بھی خرچ کرتے تھے۔ انھوں نے نبی محترم (ﷺ) کو دعوت توحید سے روکنے کے لیے بڑی بڑی پیش کشیں کی تھیں جب آپ نے ان کی پیشکشوں کو مسترد کردیا تو پھر ان لوگوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس پر بس نہیں کی پھر آپ کے خلاف جنگ و جدال کا راستہ اختیار کیا اور بہت سامال خرچ کر ڈالا لیکن بدر سے لے کر فتح مکہ تک نہ صرف ان کا جانی نقصان ہوا بلکہ بے پناہ وسائل بھی ضائع ہوئے اس طرح حسرت کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا اسی حسرت و افسوس کے ساتھ جہنم واصل ہوگئے۔ ﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً﴾[ سورۃ الفرقان :27] ” اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا میں نے رسول کے ساتھ اپنا راستہ اختیار کیا ہوتا۔“ اس وقت ان کی آہیں اور صدائیں انھیں کچھ فائدہ نہیں دیں گی اور انھیں ہمیشہ جہنم میں رہنا پڑے گا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر خرچ کیا ہوا مال ضائع ہوجاتا ہے۔ 2۔ قیامت کے دن یہ مال حسرت و افسوس کا باعث ہوگا۔ 3۔ خدا کے منکر اور باغی جہنم میں اکٹھے کیے جائیں گے۔