وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس جیسا ہم بھی کہہ لیں (25) یہ تو صرف گذشتہ قوموں کی کہانیاں ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ کفار کی دشمنی قرآن کی وجہ سے تھی۔ جس بنا پر کفار نے آپ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا ان کی عادت اور غلطی یہ تھی کہ وہ دل لگا کر قرآن سنتے ہی نہیں تھے اگر کسی طرح سن لیتے تو کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ رسول محترم (ﷺ) مشرکین مکہ کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے مختلف قسم کے بہانے بناتے اور الزامات لگایا کرتے تھے۔ ان الزامات میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ محمد (ﷺ) اپنی طرف سے ایسا کلام بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی قسم کی وحی نازل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انھیں یکے بعد دیگرے چیلنج دیے کہ اگر تمھیں اس بات پر شک ہے کہ اس نبی (ﷺ) پر ہم نے قرآن مجید نازل نہیں کیا اور اس نے خود یہ کلام بنا لیا ہے تو تم جس، جس کو چاہو اپنے ساتھ ملا کر ایک سورۃ ایسی بنا لاؤ۔ لیکن وہ اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے تھے اور قیامت تک کوئی اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے گا۔ اس کے باوجود ہر زہ سرائی کرتے ہوئے کہتے اے محمد! ہم نے آپ کے قرآن کو سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اور ایسے قصے کہانیاں بنانا ہمارے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے بندے پر جو قرآن نازل کیا ہے اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو جیسے اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورۃ بنا کرلے آؤ۔ لیکن یاد رکھو ! اب تک نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع، لازوال اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ، ارفع، لازوال اور بے مثال ہے۔ قرآن مجید انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم (ﷺ) کو ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے۔ جس کی بلاغت نے قیامت تک دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا اور کرتے رہیں گے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جب مقابلہ تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ (البقرۃ:24) فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیحی مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے۔ اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص13) مسائل : 1۔ مشرکین قرآن مجید کو غور سے نہیں سنتے۔ 2۔ قرآن مجید کو، کافر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ 3۔ قرآن مجید کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ 4۔ قرآن مجید کا لوگوں کو قیامت تک کے لیے چیلنج ہے۔