سورة الانفال - آیت 27

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت (21) نہ کرو، اور جانتے ہوئے تمہارے پاس موجود امانتوں میں خیانت نہ کرو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مزید ہدایات کے ساتھ نیا خطاب شروع ہوتا ہے : اس ارشاد میں مسلمانوں کو امانتوں میں خیانت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خیانت صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی دوسرے کی چیز میں خرد برد کرلے۔ اسلام میں امانت اور خیانت کا تصور بڑا وسیع ہے کیونکہ اس آیت میں امانت کے لیے جمع کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ہر مسلمان کے ذمہ پہلی امانت اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ محبت کرنا اور دل و جان کے ساتھ ان کے احکام ماننا ہے۔ دوسری امانت لوگوں کے آپس کے حقوق و فرائض ہیں۔ اگر کوئی شخص معاشرے کی تفویض کردہ ذمہ داری اور منصب کے فرائض تن دہی سے ادا نہیں کرتا تو وہ بھی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ منصبی ذمہ داری کے حوالے سے امانت کے ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے قرآن مجید نے ٹھوس بنیاد فراہم کرکے حکم دیا ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ جب تم کسی کو امانت سپرد کرو تو اہل لوگوں کو سپرد کیا کرو۔ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمھیں اچھی سے اچھی نصیحت کرتا ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (النساء :58) سورۃ النساء میں امانت اہل لوگوں کو سپرد کرکے ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم تھا یہاں خیانت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر امانت کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں۔ (1) اہل شخص کو منصب سپرد کرنا۔ (2) منصب کی ذمہ داری پوری کرنا۔ (3) کسی کی رکھی ہوئی امانت میں خرد برد سے بچنا اور اسے پورا پورا ادا کرنا۔ (4) اگر کوئی مشورہ طلب کرے تو اسے اپنی فہم و فراست کے مطابق پوری دیانت داری کے ساتھ مشورہ دینا اور اگر کوئی راز بتائے تو اس کے راز کی حفاظت کرنا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الایمان، بابَ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس سے مشورہ مانگا جائے وہ امین ہے۔“ (عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () اسْتَعْمَلَ عَامِلًا فَجَاءَ ہُ الْعَامِلُ حینَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِہٖ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ ہٰذَا لَکُمْ وَہٰذَا أُہْدِیَ لِی فَقَالَ لَہٗ أَفَلَا قَعَدْتَّ فِی بَیْتِ أَبِیکَ وَأُمِّکَ فَنَظَرْتَ أَیُہْدٰی لَکَ أَمْ لَا ثُمَّ قَامَ رَسُول اللّٰہِ () عَشِیَّۃً بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَتَشَہَّدَ وَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہٗ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُہٗ فَیَأْتِینَا فَیَقُولُ ہٰذَا مِنْ عَمَلِکُمْ وَہٰذَا أُہْدِیَ لِی أَفَلَا قَعَدَ فِی بَیْتِ أَبِیہِ وَأُمِّہٖ فَنَظَرَ ہَلْ یُہْدٰی لَہٗ أَمْ لَا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَغُلُّ أَحَدُکُمْ مِنْہَا شَیْئًا إِلَّا جَاءَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَحْمِلُہُ عَلٰی عُنُقِہٖ إِنْ کَانَ بَعِیرًا جَاءَ بِہٖ لَہٗ رُغَاءٌ وَإِنْ کَانَتْ بَقَرَۃً جَاءَ بِہَا لَہَا خُوَارٌ وَإِنْ کَانَتْ شَاۃً جَاءَ بِہَا تَیْعَرُ فَقَدْ بَلَّغْتُ فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ ثُمَّ رَفَعَ رَسُول اللّٰہِ () یَدَہُ حَتّٰی إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی عُفْرَۃِ إِبْطَیْہٖ قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ وَقَدْ سَمِعَ ذٰلِکَ مَعِی زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ النَّبِیِّ () فَسْئَلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب کانت یمین النبی () ] ” حضرت ابو حمیدساعدی (رض) نے بتلایا کہ رسول معظم (ﷺ) نے کسی علاقے کی طرف عامل بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آیا۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اس سے کہا تو اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا اور تو دیکھتا کہ تجھے تحفہ دیا جاتا یا نہیں۔ پھر رسول مکرم عشاء کی نماز کے بعد (ﷺ) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا اس عامل کا کیا معاملہ ہے جسے ہم کہیں مقرر کریں تو وہ واپس آکر کہے کہ یہ تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ کیوں نہ اپنے ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم میں سے جو کوئی بھی خیانت کرے گا وہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اگر وہ اونٹ ہوگا تو آوازیں نکال رہا ہوگا اگر وہ گائے ہوئی تو وہ بھی ڈکرا رہی ہوگی اور اگر بکری ہوگی تو وہ ممیارہی ہوگی۔ بلاشبہ میں نے یہ پہنچا دیا ہے۔ ابو حمید ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ پھر رسول مکرم (ﷺ) نے اپنا ہاتھ بلند فرمایا یہاں تک کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ رہے تھے۔ ابوحمید ساعدی (رض) کہتے ہیں میرے ساتھ یہ زید بن ثابت (رض) نے بھی نبی کریم (ﷺ) سے سنا تھا تو اس سے بھی پوچھ لو۔“ مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکام پر عمل نہ کرنا خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ امانت میں خیانت کرنا جائز نہیں۔