إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ
جب تم لوگ اپنے رب سے فریاد (6) کر رہے تھے، تو اس نے تمہاری سن لی اور کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کروں گا جو یکے بعد دیگرے اترتے رہیں گے
فہم القرآن : (آیت 9 سے 14) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کا مدینہ طیبہ سے نکلنا، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق تھا۔ آپ نے بدر کے ریتلے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا جس کا نقشہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) رات بھر اپنے رب کی بار گاہ میں آہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے رہے۔ جس میں آپ اس حد تک اپنے رب کے حضور فریاد کناں ہوئے کہ اے بار الہا! اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان الفاظ کے پیچھے دو قسم کے محرکات تھے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں انتہا درجہ کی عاجزی اور بے کسی کا اظہار۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر مکے کے لوگ آج غالب آگئے تو وہ اگلے دن مدینہ میں کسی ایک مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی جذبات کے ساتھ اہل مکہ نے بدر کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ نبی (ﷺ) کی دعا کے بارے میں جمع کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس میں صحابہ کرام (رض) کو شامل فرمایا گیا ہے۔ امام رازی نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) دعا کرتے تھے اور آپ کے کیمپ میں موجود صحابہ آمین کہتے تھے اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو فطرت کے زیادہ قریب ہے کہ تمام صحابہ رات کے وقت اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ سے آرزوئیں کرتے رہے کہ اے مولائے کریم ! صبح دشمن کے مقابلے میں ہمیں کامیابی نصیب فرمانا۔ کوئی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک فوج کا ایک ایک سپاہی اپنی کامیابی اور دشمن کو ختم کرنے کے جذبات سے لبریز نہ ہو۔ اسی جذبہ کی یہاں ترجمانی کی گئی ہے کہ جب آپ اور آپ کے صحابہ اپنے رب کی بار گاہ میں فتح کی التجائیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے انھیں ایک ہزار فرشتے نازل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ (آل عمران 123، 124) یہ کمک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد، ان کے لیے فتح کی خوشخبری کا پیش خیمہ اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنی۔ مدد کے لیے فرشتہ تو ایک ہی کافی تھا لیکن انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے پے درپے اس مدد میں اضافہ فرما کر نہتے اور کمزور صحابہ (رض) کو شیروں سے زیادہ بہادر اور طاقت ور بنا دیا اور پھر اس کے ساتھ یہ کرم بھی فرمایا کہ رات کو تمام صحابہ (رض) کو خوب نیند آئی حالانکہ حالت جنگ میں نیندبہت ہی کم آیا کرتی ہے۔ کیونکہ خوف و خطر کی بنا پر اعصاب میں شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ مزید اللہ کا یہ کرم ہوا کہ رات کو اچھی خاصی رحمت کی برکھا برسی جس سے میدان جنگ کی صورت حال واضح طور پر صحابہ کے حق میں ہوگئی اس سے پہلے اسلامی فوج میدان کے اوپر کی طرف تھی جو ریت اور ڈھلوان ہونے کی وجہ سے پاؤں کے پھسلنے کا مقام تھا۔ بارش ہونے کی وجہ سے کفار کا میدان دلدل بنا اور صحابہ (رض) کا حصہ ریت جمنے کی وجہ سے سخت ہوگیا۔ صحابہ (رض) نے بارش کا پانی جمع کرلیا جس سے صحابہ نے وضو اور غسل کیے۔ اس سے صحابہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر بھی تازہ دم محسوس کر رہے تھے۔ اس طرح قلبی اطمینان، ذہنی آسودگی، جسمانی نشاط اور ملائکہ کی کمک کی وجہ سے مجاہد قدم جما کر لڑے۔ اس دوران یہ وحی بھی نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دیا ہے۔ گویا کہ وہ پوری طرح تم سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھ کر ان کی گردنیں کاٹو اور جوڑ جوڑ کو نشانہ بناؤ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے باغی ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہوگا اس کو دنیا کی سزا کے ساتھ آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جس طرح بدر میں انھیں مارنے کا تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی طرح جہنم کی آگ میں جھونکتے ہوئے ملائکہ انھیں کہیں گے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیوں کا مزا ہمیشہ چکتے رہو۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔۔ یہ فلاں شخص کی قتل گاہ ہے یہ فلاں شخص کی جگہ ہے آپ نے اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا یا۔ انس (رض) کہتے ہیں کافروں میں سے کوئی بھی دوسری جگہ نہیں گراتھا جہاں جہاں رسول مکرم (ﷺ) نے دست مبارک رکھا تھا۔“ [ رواہ مسلم] (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وَقَفَ النَّبِیُّ (ﷺ) عَلٰی قَلِیبِ بَدْرٍ فَقَالَ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّہُمْ الْآنَ یَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُکِرَ لِعَائِشَۃَ (رض) فَقَالَتْ إِنَّمَا قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّہُمْ الْآنَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِی کُنْتُ أَقُولُ لَہُمْ ہُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ﴿ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ حَتّٰی قَرَأَتْ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) بدر کے کنویں کے قریب کھڑے ہو کر پوچھ رہے تھے جو تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا کیا اس کو تم نے سچا پایا ہے؟ پھر فرمایا بلاشبہ یہ اس وقت سن رہے ہیں جو میں انہیں کہہ رہا ہوں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا نبی کریم (ﷺ) نے صرف یہ فرمایا تھا بے شک ان لوگوں کو اب معلوم ہوگیا جو میں انھیں کہتا تھا وہ سچ ہے پھر اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔ ” آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے“ یہاں تک کہ مکمل آیت کی تلاوت کی۔“ مقصد یہ تھا کہ اصل اصول یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے لیکن آج یہ میری بات سن رہے ہیں۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِئْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ (ﷺ) فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (ﷺ) نے وہ جگہیں متعین فرمائیں ہمیں دکھانے کے لیے جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو فلاں کے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کافر مقررہ جگہوں سے ذرا بھی نہیں ہٹے تھے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (ﷺ) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے اور جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں لاشوں کے ساتھ باتیں ہوئیں جبکہ ان میں روحیں نہیں تھیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت مختلف انداز سے نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں : 1۔ نہیں ہے تمھارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ:107) 2۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب :17) 3۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار جو تمھاری مدد کرسکے۔ (ھود :13) 4۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ:74) 5۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ:4)