وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ کاش وہ تم لوگوں کو ایمان لے آنے کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں (١٦٢) وہ لوگ ایسا محض حسد کی وجہ سے، اور ان پر حق واضح ہوجانے کے بعد کر رہے ہیں، پس تم لوگ عفو و درگذر سے کام لو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : تمام اعتراضات کے پیچھے یہود ونصاریٰ کا ایک ہی مقصد ہے کہ تم سچے دین سے مرتد ہوجاؤ اور اس کے پیچھے دنیاوی مفادات کے ساتھ ان کا حسد بھی کار فرما ہے ان سے درگزر کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔ رسول کریم {ﷺ}کی رسالت سے یہود و نصاریٰ کے انکار کابنیادی سبب یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے نبوت ہماری وراثت ہے کیونکہ نبوت کا سلسلہ صدیوں سے ہماری نسل میں چلا آ رہا ہے اب ہماری وراثت بنی اسماعیل کو کیوں منتقل کردی گئی ہے؟ اس صورت میں چاہیے تو یہ تھا کہ اہل مکہ یہود و نصاریٰ کے حسد و بغض کا ادراک کرتے ہوئے سرور دو عالم {ﷺ}کے ہم رکاب اور ہم زبان ہوجاتے لیکن وہ شرک و کفر کے مرض میں مبتلا ہو کر کہنے لگے منصب رسالت تو کسی سرمایہ دار، وڈیرے اور نواب کو ملنا چاہیے تھا اتنا بڑا منصب ایسے شخص کو کیونکر مل سکتا ہے؟ جو مالی لحاظ سے کنگال اور سماجی اعتبار سے یتیم ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر اہل مکہ اور اہل کتاب سر توڑ کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح مسلمانوں کو رسالت مآب {ﷺ}سے برگشتہ اور ایمان کی متاع گراں مایہ سے محروم کردیا جائے۔ یہاں مسلمانوں کو یہ بتلایا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق تو بالکل نمایاں ہوچکا ہے۔ اہل کتاب محض حسد کی بنیاد پر تمہاری مخالفت کے در پے ہیں لہٰذا انہیں معاف یا ان سے صرف نظر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کر دے۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے اے مسلمانوں ابھی تم کمزور ہو اس لیے صبر کرو اور وقت کا انتظار کرو۔ حسد ایسی مہلک اور منفی قوت ہے اس میں جو بھی مبتلا ہوتا ہے وہ کسی کی بھی عزت وعظمت کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مزید یہ کہ وہ کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بسا اوقات یہ بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے کہ حاسد کو اپنی عزت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ یہی حالت آپ کے مخالفوں کی تھی۔ اس لیے قرآن مجید کے اختتام سے پہلے سورۃ الفلق میں حاسد اور اس کے حسد سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آپ {ﷺ}نے امت کو حسد سے بچنے کی تلقین اور اس کے مضرات سے متنبہ فرمایا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ { ﷺ }قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابو داؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی معظم {ﷺ}نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑیوں کو آگ بھسم کردیتی ہے۔“ حضرت ابوہریرہ {رض}بیمار ہوئے تو رسول اللہ {ﷺ}نے ان کی عیادت کے وقت فرمایا : ابوہریرہ! میں تجھے وہی دم کروں جو مجھے جبریل (علیہ السلام) نے کیا تھا؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ {ﷺ}نے یہ دم تین مرتبہ کیا : (بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ فِیْکَ مِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الطب، باب ماعوذ بہ النبی {ﷺ}وماعوذ بہ) ” اللہ کے نام سے تجھے دم کرتاہوں اللہ تجھے ہر بیماری سے شفادے جو تجھے لاحق ہے اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“ مسائل: 1۔ یہود و نصاریٰ حسد و بغض کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ 2۔ یہود و نصاریٰ اچھی طرح دین اسلام اور نبی کریم {ﷺ}کی ذات کو پہچانتے ہیں۔ 3۔ اہل کتاب سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے انہیں صرف نظر کردینا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا حکم غالب ہو کر رہتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حسد وبغض اور اس کا علاج : 1۔ اہل کتاب کی مذموم سوچ اور حاسدانہ کردار۔ (البقرۃ:120) 2۔ کسی سے حسد کرنے کی بجائے اللہ سے مانگنا چاہیے۔ (النساء :32) 3۔ حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفلق :5) 4۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ (المائدۃ:91) 5۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے درمیان بغض اور دشمنی قیامت تک کے لیے ڈال دی ہے۔ (المائدۃ:14)