سورة الاعراف - آیت 205

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ اپنے رب کو صبح و شام عاجزی کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے اور بغیر اونچی آواز کے اپنے دل میں یاد (134) کیجئے اور غافلوں میں سے نہ ہوجائیے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 205 سے 206) ربط کلام : تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو کفار سے جھگڑنے اور الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ سورۃ الاعراف کا آغاز اس فرمان سے ہوا تھا کہ اے نبی (ﷺ) ! یہ قرآن آپ کی طرف اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجے سے ڈرائیں بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اس پر آپ کے دل میں کوئی گھٹن محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو مومنوں کے لیے ایک ذکر اور نصیحت ہے اب اس سورۃ کا اختتام بھی قرآن اور ذکر سے کیا جا رہا ہے کیونکہ قرآن مجید ملائکہ کے سردار جبرائیل امین (علیہ السلام) کے واسطے سے نازل ہوا ہے۔ اس لیے یہاں ملائکہ کی عجز و عاجزی اور ان کے ذکر اور عبادت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو بھی ہر قسم کے تکبر سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر دم عاجزی کا اظہار، اس کی عبادت میں انہماک اور اس کی زبان رب کی یاد میں محور رہنے کے ساتھ اس کا سر اللہ کے حضور جھکا رہنا چاہیے۔ جہاں تک ذکر کا تعلق ہے اس میں نمود و نمائش کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ذکر سے مراد نماز بھی ہے کیونکہ سورۃ العنکبوت آیت 45میں نماز کو ذکر اکبر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے نماز کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جہری نماز میں قرأت درمیانی آواز میں ہونی چاہیے اور اگر ذکر سے عام ذکر مراد لیا جائے تو اس کے لیے بھی یہی اصول ہے کہ جہاں نبی اکرم (ﷺ) نے بلند آواز سے ذکر کیا ہے وہاں بلند آواز سے اور جہاں آہستہ اور خفیہ انداز میں کیا ہے وہاں خفیہ طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ اللہ اکبر اور تین دفعہ استغفر اللہ بلند آوازسے کہنا اور باقی اذکار آہستہ کرنے چاہییں۔ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد تلبیہ بلند آواز سے کہنا چاہیے ایسا ہی ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد آپ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیرات کہا کرتے تھے اور عیدین کے وقت بھی بلند آواز سے تکبیرات کہنا سنت سے ثابت ہے جہاں تک بعض لوگ نماز کے بعد اور اجتماعی شکل میں اللہ ھو یا کلمہ کا ورد کرتے ہیں اس کا حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔“ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ () یَقُول اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہٗ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِی یَمْشِی أَتَیْتُہٗ ہَرْوَلَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَه ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اپنے بندے کے خیال کے مطابق ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس جماعت سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (مراد فرشتوں میں) اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبان تر رہنی چاہیے۔ 2۔ ذکر انتہائی عاجزی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : سجدہ صرف ” اللہ“ کو کرنا چاہیے : 1۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم :62) 2۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس ذات کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ:37)