أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول اسے اسی طرح سوالات (١٦١) کرتے رہو، جیسے اس سے قبل موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کیے جاتے رہے، اور جس نے ایمان کے بدلے کفر کو قبول کرلیا وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا
فہم القرآن : ربط کلام : ایک طرح نبی {ﷺ}اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر اعتراض یہودیوں کے لیے معمول کی بات ہے کیونکہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اس سے زیادہ نامناسب اعتراضات وسوالات کیے تھے۔ حصول علم اور طلب ہدایت کے لیے سوال کرنا‘ ناصرف جائز ہے بلکہ شریعت نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرض قرار دیا ہے۔ البتہ خواہ مخواہ اور حیلہ سازی کے لیے سوال کرنا ناجائز قرار دیا ہے۔ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ تعمیل حکم سے بچنے کے لیے مختلف بہانے تراشا کرتے تھے۔ ان کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ پے در پے بے مقصد سوال پر سوال کیے جاتے تھے تاکہ کسی طرح اس مسئلے سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ ایک قتل کی تفتیش کے دوران جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم صادر ہوا تو انہوں نے گائے ذبح کرنے کی بجائے کئی قسم کے سوال کر ڈالے بالآخر مجبور ہو کر گائے ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ سوال کرنے کی عادت میں یہودی اس قدر عادی مجرم تھے کہ انہوں نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سوال بھی کیا کہ آپ اس قدر حیاکیوں اختیار کرتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو جنسی مرض لاحق ہوچکا ہو اور اس بات کو اس قدر اچھالا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت فرمائی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَکَانَ مُوْسٰی یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) (رواہ البخاری : باب من اغتسل عریاناوحدہ ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اس وجہ سے غسل نہیں کرتے کہ ان کے خصیتین میں بیماری ہے۔ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہواچنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دے دے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ بہانہ سازی کی عادت خبیثہ سے مسلمانوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر منع کیا جارہا ہے کہ کیا تم رسول {ﷺ}سے ایسے ہی سوالات کرنا چاہتے ہوجس طرح بے مقصد اور بے ہودہ سوال یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے تھے؟ رسول اللہ {ﷺ}نے مسلمانوں کو بے جا سوال کرنے سے منع فرمایا ہے : (ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَااسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ) (رواہ مسلم : کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ ( ” مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں یقیناتم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے کی وجہ اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ وبرباد ہوگئے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔“ مسائل: 1۔ یہودیوں کی طرح شریعت میں قیل و قال اور اعتراض وسوال نہیں کرنے چاہئیں۔ 2۔ شریعت کو بدلنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں کے بے ہودہ سوالات : 1۔ گائے کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات۔ (البقرۃ: 67تا71) 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کہ اللہ ہمیں سامنے دکھایا جائے۔ (النساء :153) 3۔ ہمارے لیے بھی مشرکوں کی طرح معبود بنائے جائیں۔ (الاعراف :138) 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لیے پانی طلب کرنا۔ (البقرۃ:60) 5۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقتول کے بارے میں سوال کرنا۔ (البقرۃ:72)