وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب آپ کے رب نے خبر دے دی کہ وہ قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط (100) کرتا رہے گا جو انہیں سخت عذاب دیا کریں گے، بے شک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور وہ بے شک بڑا مغفرت فرماتنے والا، نہایت مہربان ہے
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور بد اعمالیوں کا تسلسل جس وجہ سے ان پر وقفہ، وقفہ سے عذاب آتے رہیں گے۔ غورو فکرکے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح اور ہدایت کے لیے ان گنت انبیاء مبعوث فرمائے۔ جنھوں نے انتھک جدوجہد کی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مختلف عذاب اور بیش بہا انعامات کے ذریعے صدیوں تک بار بار اپنی اصلاح کا موقعہ دیا۔ لیکن یہ قوم اصلاح کے بجائے بگاڑ اور فساد کو ترجیح دیتی رہی۔ جس بنا پر ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آخری فیصلہ صادر فرماتے ہوئے اعلان کیا کہ اب قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط کیے جائیں گے جو انھیں اذیت ناک سزاؤں اور عذاب میں مبتلا کرتے رہیں گے۔ تاریخ کا طالب علم قرآن کی اس سچائی کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ بخت نصر سے لے کر جرمنی کے ہٹلر تک جو شخص بھی ان پر مسلط ہوا۔ اس نے انھیں اس طرح اپنی گرفت میں جکڑا اور تشدد کا نشانہ بنایا کہ دنیا سمجھنے لگی کہ اب یہودیوں کا ایک فرد بھی باقی نہیں رہے گا۔ آئندہ بھی نہ معلوم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد سے پہلے ان کی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ ان پر کتنے لوگ مسلط کرے گا جو انھیں وقفہ وقفہ کے بعد تہس نہس کرتے رہیں گے۔ قرب قیامت جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو وہ اس قدر ان کے خلاف جہاد کریں گے کہ کوئی یہودی ان سے بچ نہیں پائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی دیوار یا درخت کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرے گا تو وہ درخت بھی پکار اٹھے گا۔ ایسا کیوں ہوتا رہا اور ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب ظالم اور نافرمان کو پکڑ تا ہے تو بسا اوقات اس کی پکڑ اس قدر آناً فانًا ہوتی ہے کہ ظالم سنبھلنا چاہے تو سنبھل نہ پائے یہاں تک کہ اسے معافی مانگنے کا موقعہ بھی نہیں نصیب ہوتا۔ لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا عتاب ظالموں کے لیے ہے نیک اور تائب ہونے والوں کے لیے وہ بڑا معاف فرمانے اور انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْیَہُودَ فَیَقْتُلُہُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتّٰی یَخْتَبِئَ الْیَہُودِیُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَیَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ یَا مُسْلِمُ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ہٰذَا یَہُودِیٌّ خَلْفِی فَتَعَالُ فَاَقْتُلْہُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّہٗ مِنْ شَجَرِ الْیَہُودِ) [ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہود یوں سے لڑائی نہ کریں مسلمان ان کو مسلمان قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے۔ تو پتھر اور درخت پکار اٹھے گا اے مسلمان اے اللہ کے بندے یہ میرے پیچھے یہودی ہے آؤ۔ اس کو قتل کرو غرقد کا درخت ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔“ مسائل : 1۔ یہودیوں پر وقفہ وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ سخت گیر فاتح مسلط کرتا رہے گا۔ 2۔ قیامت سے پہلے بھی انھیں مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا جائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ عذاب دینے والا بھی ہے اور معاف کرنے والا بھی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا عذاب اور بخشش : 1۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہوگا۔ (الحجر :49) 2۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرحیم ہے۔ (النحل :119) 3۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ (النور :22) 4۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الانعام :166) 5۔ اللہ اپنے بندوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ (التوبۃ:99) 6۔ اللہ سب گناہوں کو معاف کردینے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الزمر :53)