سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ ان سے اس بستی (98) کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب اس بستی کے رہنے والے ہفتہ کے دن کے بارے میں اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے تھے، جب مچھلیاں ہفتہ کے دن اپنا سر نکالے ان کے پاس آجاتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہیں ہوتا تو مچھلیاں ان کے پاس نہیں آتی تھیں، ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں آزمائشوں میں ڈالیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 163 سے 166) ربط کلام : یہودیوں کی دنیا پرستی اور اللہ تعالیٰ کی پرلے درجے کی نافرمانی کا ایک اور واقعہ۔ یہودی اس قدر دنیا پرست اور ناعاقبت اندیش قوم ہے کہ دنیا کے مقابلے میں ان کے نزدیک دین اور اخلاقی قدروں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اصحاب السّبت کا واقعہ یہودیوں کے ہاں ہمیشہ سے معروف رہا ہے۔ اس لیے یہ واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی اکرم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھی سے استفسار فرمائیں کہ اس بستی کا کیا واقعہ اور معاملہ ہے؟ جو سمندر کے کنارے واقع تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ ہفتہ کے دن کاروبار کرنے کی بجائے تمھیں صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے لیکن انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح آزمائش میں ڈالا کہ ہفتہ کے دن مچھلیوں کے بڑے بڑے ریلے پانی کے اوپر تیرتے دکھائی دیتے تھے۔ ﴿شُرَّعًا﴾ کا معنی ہے ’ ’نیزے کی انی“ جو نیزے کے سامنے دکھائی دیتی ہے گویا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں اس قدر بہتات کے ساتھ پانی کی سطح پر تیرتی اور اچھلتی تھیں جیسا کہ دیکھنے والوں کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہوں۔ جونہی مچھلیوں کے ریلے نظر آئے تو انھوں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت سے یہ صورت نکالی کہ بحر قلزم کے کنارے پانی کے بڑے بڑے گھاٹ اور تالاب تیار کیے جائیں تاکہ مچھلیاں ہفتہ کے دن دریا سے پکڑنے کے بجائے اتوار کے دن پکڑی جائیں۔ بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی نہ ہو اور لوگوں کی نظروں میں بدنامی سے بھی بچ سکیں۔ لیکن مچھلیاں بھی ہاتھ سے نہ جانے پائیں۔ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں سازش اور حیلہ سازی کی تھی جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا اور حکم صادر فرمایا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ کیونکہ ان کے دل و دماغ بندروں کی طرح شرارت سوچتے تھے۔ اس لیے ان کی شکلوں کو بھی بندر بنا دیا گیا۔ ان کی شکلیں اس قدر ذلیل اور حقیر بنا دی گئیں کہ دیکھنے والا ان پر لعنت کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس حالت میں وہ تین دن کے اندر تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ اس صورت حال میں بستی کے لوگ فکری اور عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ وہ تھا جنھوں نے بار بار مجرموں کو اس حرکت سے روکا۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو کسی کمزوری یا مصلحت کی خاطر یہ کہہ کر ان سے الگ ہوگئے کہ انھیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ رب ذوالجلال کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ اگر یہ اسی طرح اللہ کے حکم کے ساتھ مذاق کرتے رہے تو عنقریب شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن سمجھانے والے لوگ الگ ہونے والوں کو کہتے کہ ہم انھیں اس لیے سمجھا رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا یہ عذر قبول ہو اور ہم اس کے عذاب سے بچ جائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کے شاگرد رشید عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں میں ایک دن حضرت ابن عباس (رض) کے پاس حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے ان کی گود میں قرآن مجید پڑا تھا میں نے عرض کی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت ابن عباس (رض) نے سورۃ الاعراف کی ان آیات کی تلاوت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجرمین کو سزاد ی اور ان کو مسخ کرکے بندر بنا دیا اور جو فریق ان کو برائی سے منع کرتا تھا۔ اس کا ذکر فرمایا کہ اس کو نجات دے دی اور تیسرا فریق جو ان کو منع نہیں کرتا تھا اس کا ذکر نہیں فرمایا کہ ان کی نجات ہوئی یا نہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بھی کئی کاموں کو برا سمجھتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو منع نہیں کرتے اللہ جانے ہماری نجات ہوگی یا نہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں آپ پر قربان ہوں کیا اس فریق نے ان کاموں کو برا نہیں سمجھا تھا؟ قرآن مجید سے معلوم ہو رہا ہے کہ انھوں نے مچھلیاں پکڑنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور ان سے الگ ہوگئے۔ ان کے عذاب سے بچنے کی یہ واضح دلیل ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) میرے اس جواب سے خوش ہوئے اور مجھے دو چادریں تحفۃً عنایت فرمائیں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں حیلے تلاش کرنا اس کے غضب کو چیلنج کرنا ہے۔ 2۔ تبلیغ کا فریضہ ہر حال میں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ کسی مجبوری کی وجہ سے تبلیغ کا فریضہ ادا نہ ہو سکے تو مجرموں سے الگ ہوجاتا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: یہودیوں کی سزائیں : 1۔ ہم نے یہودیوں پر ان کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانور، گائے اور بھیڑ کی چربی حرام کردی۔ (الانعام :147) 2۔ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ (البقرۃ:61) 3۔ یہودیوں کو بندر بنا دیا گیا۔ (البقرۃ: 65)