سورة الاعراف - آیت 157

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان کے لیے جو ہمارے رسول نبی امی (90) کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں، اور ان بارہائے گراں اور بندشوں کو ان سے ہٹاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے جکڑے ہوئے تھے، پس جو لوگ ان پر ایمان (91) لائے ہیں، اور جنہوں نے ان کے مقام کو پہچانا ہے، اور ان کی مدد کی ہے، اور اس نور کی پیروی کی ہے جو ان پر نازل ہوا، وہی فلاح پانے والے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار دیے گئے لوگ (1) صاحب تقویٰ (2) زکوٰۃ ادا کرنے والے (3) اللہ تعالیٰ کی آیات پر مکمل ایمان لانے والے لوگ بیان کیے گئے ہیں۔ اب رحمت کے مستحق حضرات کے لیے مزید بنیادی شرائط بیان کی جاتی ہیں۔ مندرجہ بالا صفات رکھنے والے تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے اگر وہ حضرت محمد (ﷺ) کی نبوت سے پہلے فوت ہوچکے ہوں۔ جب سے نبی آخر الزماں (ﷺ) نے نبوت کا اعلان کیا اس کے بعد کوئی شخص مذکورہ بالا اوصاف کا مالک ہی کیوں نہ ہو اس کا ایمان، کردار اور تقویٰ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک وہ نبی امیّ پر ایمان لاکر آپ کی ذات والا صفات کے حوالے سے درج ذیل تقاضے پورے نہ کرے۔ 1۔ حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت اور ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھنا۔ 2۔ آپ سے دل کی گہرائیوں سے حمیت آپ کی توقیر اور اطاعت کرنا۔ 3۔ مال و جان کے ساتھ آپ کی نصرت و حمایت کرنا۔ 4۔ اس نور کی روشنی میں زندگی بسر کرنا جس کے ساتھ آپ دنیا میں مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت محمد (ﷺ) کی پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ ہے امی کے مفسرین نے چار معانی بیان کیے ہیں۔ 1۔ آپ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شخص سے نہ سیکھا نہ پڑھا اس لیے آپ امی ہیں۔ 2۔ آپ شہر مکہ میں پیدا ہوئے جسے قرآن مجید نے امّ القرایٰ قرار دیا ہے اس نسبت سے آپ امی ہیں۔ 3۔ آپ بنی اسماعیل میں سے ہیں کیونکہ نبوت ہمیشہ بنی اسرائیل میں رہی ہے اس لیے اہل کتاب بنی اسماعیل کو امی کہتے ہیں گویا کہ امی سے مراد بنی اسماعیل کا نبی۔ 4۔ آپ قیامت کے روز سب سے بڑی امت کے نبی ہوں گے اس لیے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس بنا پر آپ کو النبی الامی کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ اہل کتاب رسول اللہ (ﷺ) کے نام اور امی کے لقب سے پوری طرح واقف ہیں کیونکہ تورات اور انجیل میں آپ کے اسم گرامی اور امی کا ذکر بار بار پایا جاتا ہے۔ تورات اور انجیل میں یہ بھی موجود ہے کہ آپ اہل کتاب اور پوری دنیا کو معروف کا حکم دیں گے، منکر سے منع کریں گے اور اہل کتاب کے لیے بہت سی حرام چیزیں حلال قرار دیں گے جو ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے محض سزا کے طور پر ان پر حرام کی گئی تھیں اور ناپاک چیزوں کو حرام کریں گے۔ آپ اہل کتاب اور بنی نوع انسان کے کندھوں سے وہ ناروا بوجھ اتار ڈالیں گے جو ان کے پیشہ ور علماء اور مفاد پرست درویشوں اور صوفیوں نے دین کے نام پر ڈال رکھے ہیں۔ تورات اور انجیل میں آپ (ﷺ) کی یہ صفت بھی موجود ہے کہ آپ من ساختہ شریعت کی بنیاد پر ناروا لگائی گئی پابندیوں سے آزاد کرنے کے ساتھ لوگوں کی سیاسی، سماجی غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکیں گے۔ بس وہ لوگ جو آپ پر کامل ایمان لائیں، آپ کی دل و جان سے عزت و توقیر کریں گے، اور اپنے مال و جان کے ساتھ آپ کی حمایت پر کمربستہ ہوں گے اور قرآن مجید کی صورت میں جو آپ پر نورِہدایت نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کریں گے۔ وہی دنیا میں کامیاب اور آخرت میں فلاح پائیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللّٰہِ () أَنَّہٗ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہٖ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب وجوب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (ﷺ) کا بیان نقل کرتے ہیں بلا شبہ آپ (ﷺ) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے ! تمام لوگوں یعنی یہود یوں اور عیسائیوں میں سے کوئی بھی شخص میرا پیغام سنے اور اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے تو وہ جہنم میں جائے گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں بلا شبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم میں کوئی بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔“ ﴿لِتُؤْمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا﴾[ سورۃ الفتح :9) ” تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔“ مسائل : 1۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ کچھ پڑھا اور نہ کچھ سیکھا۔ 2۔ اہل کتاب کے وہی ایمان دار نجات پائیں گے جو حضرت محمد (ﷺ) پر ایمان لائیں گے۔ 3۔ آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ آپ کی دل و جان سے تعظیم اور مال و جان سے حمایت کی جائے۔ 4۔ قرآن مجید پر ایمان لانے اور اس پر حتی المقدور عمل کرنے سے ہی آدمی کو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات نصیب ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: نبی مکرم (ﷺ) کا احترام کرو : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات :4) 2۔ آپ (ﷺ) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات :2) 3۔ آپ (ﷺ) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات :1) 4۔ آپ (ﷺ) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد :33)