وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (اے میرے رب !) تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے، اور آخرت میں بھی ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا، اللہ نے کہا، میں اپنے عذاب (88) میں جسے چاہتا ہوں مبتلا کرتا ہوں، اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقوی (89) کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی زندہ ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرمادیا ہے تو انھوں نے اس کرم نوازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی دعا کی اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا کی ” حَسَنَۃً“ لکھ دیجیے اور آخرت کو بھی بہتر فرما دیجیے۔ یقیناً ہم تیری طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ ﴿ حَسَنَۃً﴾ سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ملنے سے آدمی کے دل کو سکون اور ایمان میں اضافہ ہو۔ پھر اس کا آخرت میں بھی پورا پورا اجر مل جائے۔ اس لیے مومنوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ جب بھی وہ اپنے رب سے کوئی چیز طلب کریں انھیں دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کرنی چاہیے۔ (البقرۃ: 201) موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عذاب مجرم کو ضرور پہنچے گا جسے میں چاہوں گا لیکن یاد رکھو کہ میری رحمت میرے عذاب اور ہر چیز سے وسیع تر ہے۔ جو ہر اس شخص کے نصیب میں آئے گی جس میں یہ خوبیاں پائی جائیں گی۔ 1۔ تقویٰ اختیار کرنے والا۔ 2۔ زکوٰۃ ادا کرنے والا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر مکمل ایمان لانے والا۔ 4۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کی اتباع کرنے والا۔ 5۔ نبی آخرالزمان (ﷺ) پر ایمان لانے کے ساتھ آپ کی توقیر اور حمایت کرنے والا۔ 6۔ قرآن مجید کی اتباع کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ لَمَّا قَضَی الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہٗ فَوْقَ عَرْشِہٖ إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے عر ش کے اوپر لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ لِلّٰہِ مائَۃَ رَحْمَۃٍ قَسَمَ مِنْہَا رَحْمَۃً بَیْنَ جَمِیعِ الْخَلَائِقِ فَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی أَوْلَادِہَا وَأَخَّرَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب مایرجی من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ تمام مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ باہم محبت وشفقت سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی ننانوے حصے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں جن سے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَقُول اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَاب النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ومنہم من یقول ربنا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی عنایت فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی حسنۃً مانگنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مجرم کو معاف کرنے یا اس کو سزا دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے۔