وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
اور موسیٰ کی قوم نے ان کے کوہ طور پر چلے جانے بعد اپنے زیورات سے بچھڑے (80) کا جسم بنایا جس سے ایک آواز نکلتی تھی، کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ وہ ان سے نہ باتیں کرتا ہے اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتا ہے، انہوں نے اسے اپنا معبود بنا لیا، اور وہ سراسر ظالم تھے
فہم القرآن : (آیت 148 سے 149) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل کا مشرکانہ کردار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر معتکف ہوئے ان کی غیر حاضری میں بنی اسرائیل میں سے ایک شخص جس کا نام سامری تھا۔ اس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور ان کو ڈھال کر ایک بچھڑا بنایا۔ پھر اس میں مٹی ڈالی جس مٹی کے بارے میں سورۃ طٰہٰ آیت 96میں بیان ہوا ہے کہ یہ مٹی اس نے اس وقت اٹھائی تھی جب بحر قلزم میں فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے مٹی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری تھی۔ سامری نے دیکھا کہ جس گھوڑے پر جبریل امین (علیہ السلام) انسانی شکل میں سوار ہیں اس کے سم جہاں پڑتے ہیں۔ گھاس ہری ہوجاتی ہے۔ اس نے اس مٹی کو اٹھا لیا۔ کچھ حضرات نے لکھا ہے کہ اثر رسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ قرآن مجید نے سامری کی اس بات کی تردید یا تائید نہیں کی جو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہی میں نے یہ مٹی فلاں موقع پر اٹھائی تھی۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس مٹی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ قرار دیا تاکہ وہ سزا سے بچ جائے۔ بہر کیف الرسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا جبرائیل امین (علیہ السلام) سامری نے شیطانی تکنیک سے ایک ایسا بچھڑا بنایا کہ جس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکلتی تھیں۔ بچھڑے کو سمجھنے کے لیے آج کے دور کے کھلونے اور ربوٹ دیکھنے چاہییں کہ جو ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کے ذی روح ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور مشرکانہ جبلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے حکم سے کوہ طور پر گئے ہیں وہ ہمارے پاس خود آن پہنچا ہے۔ بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگوں نے بچھڑے کو معبود سمجھ کر اس کی تکریم اور عبادت شروع کردی جس طرح کہ مشرک لوگ بتوں اور قبروں کی عبادت کرتے ہیں۔ ایک احترام کے طور پر اس کے سامنے کھڑا ہے اور دوسرا اس بچھڑے کے سامنے رکوع کر رہا ہے۔ کوئی اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے اپنی حاجات پیش کرتا اور کوئی اس کے حضور سجدہ اور نیاز پیش کر رہا ہے انھوں نے یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو ہمارے ہی زیورات سے بنایا ہوا ایک مجسمہ ہے جو نہ خودبات کرسکتا ہے اور نہ ہی ہماری فریاد کا جواب دیتا ہے۔ اسے اپنے قدموں پہ چلنے کی طاقت نہیں اور نہ ہی اسے شعور اور اس کے وجود میں کوئی حرکت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ مشکل کشا حاجت روا کس طرح ہوسکتا ہے اور ہماری رہنمائی کیونکر کرسکتا ہے مشرکانہ عقیدہ کا یہی اندھاپن ہے کہ لوگ اس عقیدہ کو سوچے سمجھے بغیر محض بھیڑ چال کے طور پر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مشرکانہ عقیدہ اور کردار ایسا ظلم ہے جس کے مقابلے میں تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔ ظلم نام ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کا یہی کچھ مشرک کرتا اور سوچتا ہے کہ جو تکریم اور عبادت کے آداب صرف اور صرف ایک اللہ کے لیے ہونے چاہییں مشرک قبروں، بتوں اور دیگر چیزوں میں تصور کرتا ہے۔ یہاں الوہیت کی صرف دو صفات کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو یہ فرما کر گئے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کرنے اور مستقبل کے لیے ہدایات لینے کے لیے جا رہا ہوں۔ اس لیے اس قوم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے ساتھ ہمارے لیے مزید ہدایات لائیں گے۔ جس بچھڑے کو انھوں نے اپنا معبود بنا لیا تھا۔ اس میں باقی صفات تو چھوڑ یے یہ دو بھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ پھر اس کو معبود بنانے کا ان کے پاس کیا جواز تھا۔ (قَالَ فَاذْہَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاۃِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ إِلٰی إِلٰہِکَ الَّذِی ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا۔إِنَّمَآ إِلٰہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِی لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَ نْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آَتَیْنَاکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا)[ طٰہٰ: 97تا99] ” موسیٰ نے کہا : جاؤ تمھارے لیے زندگی بھر یہ (سزا) ہے کہ (دوسروں سے) کہتے رہو کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے عذاب کا ایک وقت ہے جو تجھ سے کبھی نہیں ٹل سکتا اور اپنے الٰہ کی طرف دیکھ، جس کے آگے تو معتکف رہتا تھا کہ ہم کیسے اسے جلا ڈالتے ہیں پھر اس کی راکھ کو کیسے دریا میں بکھیر دیتے ہیں۔ تمھارا الٰہ تو صرف وہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اے نبی ! اسی طرح ہم گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں تجھ سے بیان کرتے ہیں نیز ہم نے اپنے ہاں سے تجھے قرآن عطا کیا ہے۔“ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے بچھڑے پر ٹوٹ پڑے تھے انھیں موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے احساس ہوگیا کہ ہم سے گناہ ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے۔ لیکن قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ انھیں دنیا میں ذلیل کردینے والی سزا دی گئی۔ جو یہ تھی کہ تم اپنے ہاتھوں ایک دوسرے کو قتل کرو۔” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے لہٰذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔ تمھارے رب کے ہاں یہی بات تمھارے حق میں بہتر ہے۔ پھر اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی وہ توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (البقرۃ:54) مسائل : 1۔ مشرک جن کی عبادت کرتے ہیں وہ نہ ان سے کلام کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ 2۔ شرک کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ 3۔ کفر و شرک کی حالت میں مرنے والا شخص قیامت کے دن بڑا نقصان پائے گا۔ تفسیر بالقرآن : خسارہ پانے والے لوگ : 1۔ ( حضرت آدم اور حضرت حوانے کہا) اے اللہ اگر تو نے معاف نہ کیا اور رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف :23) 2۔ دنیا اور آخرت کا خسارہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ (الحج :11) 3۔ جس کا نیکی والا پلڑا ہلکا ہوا خسارہ پائے گا۔ (الاعراف :9) 4۔ جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہ خسارہ پائیں گے۔ (الزمر :63) 5۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوجا تے۔ (البقرۃ:64) 6۔ جن کے اعمال برباد ہوگئے وہ خسارہ پائیں گے۔ (المائدۃ:5) 7۔ ارکان اسلام کو چھوڑنے والے آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (النمل :5) 8۔ اسلام سے رو گردانی کرنے والے دنیاء و آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (آل عمران :85)