وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کا رب ان سے ہم کلام (74) ہوا، تو انہوں نے کہا، اے میرے رب ! مجھے اپنا دیدار نصیب فرما، اللہ نے کہا کہ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھئے، اگر یہ اپنی جگہ پر باقی رہ جائے، تو مجھے دیکھ لیجئے گا، پس جب اس پہاڑ پر ان کے رب کی تجلی کا ظہور ہوا، تو اسے ریزہ ریزہ کردیا، اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش آیا تو کہا، اے اللہ ! تو ہر عیب سے پاک ہے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں، اور میں پہلا مومن ہوں
فہم القرآن : (آیت 143 سے 144) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور ذات اقدس کے دیدار کا مطالبہ۔ حسب وعدہ موسیٰ (علیہ السلام) چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر تشریف فرما ہوئے۔ چالیس راتوں سے مراد تمام مفسرین نے دن اور راتیں مراد لی ہیں کیونکہ شریعت میں قمری مہینوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔ جس کی ابتداء چاند کے نمودار ہونے سے ہوتی ہے اس لیے شریعت کی تمام عبادات کا حساب طلوع چاند سے لگایا جاتا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) حسب وعدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی غرض سے کوہ طور پر پہنچے اور انھوں نے چالیس راتیں مکمل کرلیں تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی ہم کلامی کا اعزازبخشا جس کی نوعیت اور کیفیت کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا رب ہی جانتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کا کیا انداز اور کونسا طریقہ اختیار فرمایا تھا تاہم قرآن مجید صرف یہ وضاحت کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرط محبت میں آکر اپنے رب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے رب میں تیری زیارت کا طلب گار ہوں کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ اسی تڑپ اور طلب میں گزر رہا تھا کہ کب اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ہم کلامی کا شرف عنایت فرماتا ہے جوں ہی ان لمحات کا آغاز ہوا جس سے کوہ طور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے بقعہ نور بنا۔ رب کریم کے کلام کی مٹھاس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بے خود ہوگئے۔ اور اسی بے خودی کے عالم میں انھوں نے اپنے رب کے حضور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے رب میں تجھے دیکھے بغیر نہیں رہسکتا۔ مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فقط اتنا فرمایا کہ اے موسیٰ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ پہاڑ میرے جمال و جلال کو برداشت کرسکا تو تو بھی میرا دیدار کرسکے گا۔ جوں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کا پر تو پہاڑ پر ڈالا تو ٹنوں وزنی پہاڑ کا یہ حصہ ایک لمحہ میں ریت کے ذرّات میں تبدیل ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر نیچے گر پڑے۔ جب انھیں ہوش آیا تو فوراً پکار اٹھے میرے رب تیری ذات کبریا لامحدود اور اتنی پر جلال اور صاحب جمال ہے کہ کسی آنکھ کے احاطۂ نظر میں نہیں آسکتی۔ اس لیے میں اس مطالبہ پر تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب لوگوں سے پہلے اس پر ایمان لاتاہوں کہ تیرا فرمان سچا ہے۔ واقعی کوئی آنکھ تیرے دیدار کی سکت نہیں رکھتی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حکم پر کوہ طور پر گئے اور رب کبریا کی زیارت نہ کرسکے تو دوسرا کون ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کرے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ اور نہ ہی ایسا اعتقاد رکھنا چاہیے کہ فلاں بزرگ نے حالت بیداری یا خواب میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کسی کو خواب میں اپنے جمال کی کسی جھلک سے سرفراز فرما دے تو یہ ممکن ہے۔ لیکن اسے اشتہار اور مشہوری کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا مشکلات سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے۔ * مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ * اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ رہو گے اور مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ ﴿وَلاَ تَجِدُاَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ﴾ [ الاعراف : 17] ” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ اکثر انسان خوف اور طمع کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرتے ہیں ؟ رب کریم نے انسان کی حاجات و ضروریات اور اس کی کمزوری کی وجہ سے اس انداز کو بھی نہ صرف عبادت میں شمار فرمایا بلکہ اس طرح مانگنے کا حکم دیا ہے ایسے لوگوں کو محسنین قرار دے کر اپنی رحمت و دستگیری کا یقین دلایا ہے۔ مگر جو لطف اور لذت اظہار تشکر کے جذبات میں پائی جاتی ہے وہ خوف اور طمع کی عبادت میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح غم اور خوف کے آنسو اپنی جگہ سمندروں اور دریاؤں کے پانی سے زیادہ وزنی ہیں۔ کیونکہ سرور دو عالم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اللہ کے خوف سے گرنے والا آنسو کا ایک قطرہ زندگی بھر کے انسان کے غلیظ ترین دامن کو دھونے کے لیے کافی ہے۔ ابھی وہ قطرہ انسان کی پلکوں سے ڈھلک کر اس کے رخسار پہ نہیں گرتا کہ غفور و رحیم مالک اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے لیکن شکر کے آنسو بندۂ مومن میں عجب جذبۂ اطاعت و عبادت پیدا کرتا ہے۔ یہی تصور اور کیفیت رسول اللہ (ﷺ) کے اس فرمان میں پائی جاتی ہے کہ جب تہجد کی نماز میں سسکیاں لیتے ہوئے آپ طویل قیام کرتے، آپ کے مبارک قدموں پر ورم پڑجاتے تو مسلمانوں کی والدہ ماجدہ، آپ کی زوجہ سیدہ عائشہ (رض) از راہ ہمدردی عرض کرتیں کہ میرے آقا ! آپ اس قدر کیوں روتے اور مشقت اٹھاتے ہیں ؟ جبکہ بارگاہ ایزدی سے آپ کی سب کمزوریوں کو معاف کردیا گیا ہے آپ نے شکر سے لبریز کلمات کا اس طرح اظہار فرمایا : (أَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شُکُوْرًا۔) [ مشکوٰۃ، باب التحریض علی قیام الیل] ” کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف بخشا۔ 2۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے جلوہ کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو کر گر پڑے 3۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شکر کی فضیلت : 1۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیے۔ (الزمر :66) 2۔ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہیے بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (سورۂ لقمان :14) 3۔ اگر تم شکر کا رویہ اپناؤ گے تو ہر صورت مزید عنایات پاؤ گے۔ (ابراہیم :7) 4۔ اللہ کو تمھیں سزا دینے سے کیا فائدہ، اگر تم شکر اور تسلیمات کا انداز اختیار کرو۔ وہ اللہ تو نہایت ہی قدر افزائی کرنے والاہے۔ (النساء :147) 5۔ بندوں میں بہت کم شکر ادا کرنے والے ہیں۔ (سبا :13)