قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
فرعون نے کہ اس کے قبل کہ میں اجازت دیتا، تم لوگ اس پر ایمان (61) لے آئے، یہ یقیناً ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے شہر میں اس غرض سے کی ہے تاکہ اس کے رہنے والوں کو یہاں سے نکال دو، پس تم عنقریب جان لوگے کہ تمہارا انجام کیا ہوتا ہے
فہم القرآن : (آیت 123 سے 126) ربط کلام : جادو گروں کے ایمان لانے پر فرعون کا ان پر سازش کرنے کا الزام اور ان کو مار ڈالنے کی دھمکیاں۔ اس پر جادوگروں کا رد عمل اور عزم و استقلال کا مظاہرہ۔ حق و باطل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل عیاں دکھائی دیتی ہے کہ حق ہمیشہ دلائل کی بنیاد پر باطل پر غالب رہا ہے اور غالب رہے گا۔ یہی بات قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ” کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو ہر جانب پھیلا کر رہے گا۔ اس نے اپنے رسول کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ اس کا دین تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار ہو۔“ (سورۃ الصف : 8، 9) سورۃ المجادلۃ کی آیت 21میں یہ فرمایا کہ ” اللہ نے یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آکر رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ قوت رکھنے والا غالب ہے۔“ یہی بات جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے کہی گئی تھی۔ اے موسیٰ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یقین جانیے کہ آپ ہی غالب رہیں گے۔ جادوگر جہاں سے بھی حملہ آور ہو کامیاب نہیں ہوتا۔“ (طٰہٰ 68تا69) اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور جو جادوگر تھوڑی دیر پہلے فرعون زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے جونہی ان کے سامنے حقیقت منکشف ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان لانے کا دو ٹوک الفاظ میں نہ صرف اعلان کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والے یہ جان جائیں کہ جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں شکست کھاچکے ہیں۔ فرعون یہ ہزیمت کس طرح برداشت کرسکتا تھا اس لیے اس نے اپنی ذلت چھپانے اور لوگوں پر تسلط قائم رکھنے کے لیے ایمان لانے والوں پر سازش کا الزام لگایا کہ تم نے میری اجازت کے بغیر ایمان لانے کا اعلان کیا یہ تم جادوگروں کی ہمارے خلاف بہت بڑی سازش ہے تاکہ تم ہمیں اقتدار سے محروم کرکے ملک سے نکال دو۔ لیکن یاد رکھو کہ عنقریب تمھاراانجام تمھارے سامنے ہوگا۔ سورۃ طٰہٰ آیت 71تا 73میں یہ بیان ہوا ہے کہ فرعون نے یہ بھی الزام لگایا کہ درحقیقت یہ تمھارا استاد جادوگر ہے جس کے ساتھ مل کر تم نے یہ کام کیا ہے لہٰذا میں تمھارے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجوروں کے بلند تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی اور تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم سزا دینے میں کتنے سخت لوگ ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ایمانداروں نے کہا کہ ہمارے پاس سچ اور حق کے دلائل آچکے ہیں جن پر ہم تمھیں اور تمھارے مفادات کو ہرگز تر جیح نہیں دے سکتے۔ لہٰذا جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے کر گزر تیری سزا تو اس دنیا کی حد تک محدود ہے بلاشبہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے اور جو ہم نے جادو کا مظاہرہ کیا ہے اسے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ بیان ہوا ہے کہ جب فرعون نے ان کے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکی دی تو صاحب ایمان لوگوں نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا کہ یقیناً ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں۔ ہمارا صرف اتنا قصور ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جو ہم تک پہنچ چکی ہیں۔ ہم اپنے رب کے حضور یہ فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے پالنہار ہمیں فرعون کی اذیتوں پر صبر و استقامت عنایت فرما اور ہماری موت تیرے تابعدار بندوں جیسی ہو۔ فرعون نے صاحب عزیمت لوگوں کو مار ڈالنے کی دھمکی دی تھی اس لیے انھوں نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جواب دیا کہ دنیا میں کسی نے بھی ہمیشہ نہیں رہنا لہٰذا ہمیں موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ موت تو اپنے رب تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے ہم مر کر اپنے رب کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے اپنے رب کے ہاں بہتر انجام کی دعا کی تھی مومن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی کہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اللہ کے راستے میں جان قربان کر دے۔ سچے ایمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ انسان کو ایک لمحہ میں صبر و استقامت اور ایمان و ایقان کی ایسی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے جس کا دنیا دار شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وہ جذبہ اور ایمان کا درجہ ہے جس کا اظہار حضرت خبیب (رض) نے تختۂ دار پر چڑھتے ہوئے اہل مکہ کے سامنے کیا تھا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے دس آدمیوں کو کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور ان کا ذمہ دار عاصم بن ثابت انصاری کو بنایا جو کہ عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے یہ لوگ جب ہداۃ مقام پر پہنچے جو کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو کسی نے بنی لحیان کے لوگوں کو بتایا جو ہذیل قبیلے کی شاخ ہے انھوں نے دو سو تیرا نداز ان کے تعاقب میں بھیجے یہ لوگ ان کے نشان ڈھونڈتے چل پڑے۔ رسول معظم (ﷺ) کے صحابہ (رض) نے ایک جگہ کھجوریں کھائیں تھیں جو مدینہ سے ساتھ لی تھیں۔ بنولحیان کے لوگوں نے وہاں کھجوریں دیکھیں تو پہچان لیں کہ یہ یثرب کی کھجوریں ہیں عاصم اور ان کے ساتھیوں کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب عاصم نے ان کو دیکھا تو ایک ٹیکری پر پناہ لی کافروں نے ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے تم ٹیکری سے اتر آؤ اور اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دو۔ اور ہم تم سے پکاوعدہ کرتے ہیں کہ تم کو نہیں ماریں گے یہ سن کر عاصم بن ثابت جو کہ ان کے سردار تھے نے کہا اللہ کی قسم! میں اپنے آپ کو کافروں کے سپرد نہیں کروں گا۔ اے اللہ! ہمارے نبی (ﷺ) کو ہماری خبر دے دے۔ اس پر کافروں نے تیروں کی بارش شروع کردی اور عاصم سمیت سات کو شہید کردیا۔ باقی جو تین بچ گئے وہ کافروں کے اقرار پر بھروسہ کرکے اتر آئے انھی میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک اور شخص تھے جب کافروں کے قابو میں آگئے تو انھوں نے دھوکہ دیا اور اپنی کمانوں کی رسی کھول کر ان کے ہاتھ باندھ دیے۔ تیسرا شخص کہنے لگا یہ پہلا دھوکہ ہے میں تمھارے ساتھ نہیں جانے والا۔ میں تو اپنے شہید ساتھیوں کی پیروی چاہوں گا۔ کافروں نے ان کو زبردستی ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ آخر کار انھوں نے اسے شہید کر ڈالا۔ اور خبیب اور زید بن دثنہ کو پکڑ کرلے گئے۔ ان دونوں کو غلام بنا کر مکہ میں مشرکین کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا۔ بدر کے دن خبیب نے ان کے باپ حارث کو قتل کیا تھا۔ خبیب چند دنوں تک ان کے پاس قید رہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں مجھ سے عبید اللہ بن عیاض نے بیان کیا ان سے حارث کی بیٹی بیان کرتی تھی جب حارث کے گھر کے افراد متفق ہوگئے کہ انھیں قتل کردیا جائے تو انھی دنوں خبیب نے زینب سے ایک استرا مانگا تو زینب نے ان کو دے دیا۔ اس وقت اتفاق سے میرا ایک بیٹا انجانے میں خبیب کے پاس آگیا۔ میں نے دیکھا تو کم سن ان کے ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے یہ منظر دیکھ کر میں گھبرا گئی۔ خبیب نے میرا چہرہ دیکھ کر پہچان لیا میں گھبرا رہی ہوں اور پوچھا کیا تو یہ سمجھتی ہے میں اس بچے کو مار ڈالوں گا یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ زینب کہتی ہیں میں نے خبیب کی مانند کوئی نیک آدمی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن دیکھا کہ وہ لوہے کی زنجیر میں جکڑے ہوئے انگور کا گچھا ان کے ہاتھ میں تھا کھا رہے تھے۔ ان دنوں مکہ میں پھل بالکل نہیں ملتا تھا۔ زینب کہتی تھیں یہ اللہ تعالیٰ کا رزق ہے جو خبیب کو اس نے عنایت فرمایا۔ جب خبیب کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو انھوں نے درخواست کی مجھے دورکعت پڑھنے دو۔ انھوں نے اجازت دے دی۔ خبیب نے دو رکعت ادا کیں، پھر وہ کہنے لگے اگر تم یہ خیال نہ کرتے کہ میں مارے جانے سے ڈرتا ہوں تو میں اپنی رکعات لمبی ادا کرتا۔ یا اللہ ان کافروں کو ایک ایک کرکے ہلاک کر دے۔ پھر حارث کے بیٹے نے انھیں شہید کردیا۔ حضرت خبیب (رض) نے اس چیز کی ابتدا کی جو بھی مسلمان اسیر ہو کر مارا جائے تو وہ دو رکعت نماز ادا کرلے۔ جس دن حضرت عاصم (رض) شہید ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔ نبی مکرم (ﷺ) نے اسی دن اپنے صحابہ (رض) کو خبر دی اور ان کی مصیبت بیان کی۔ ان کے شہید ہونے کے بعد قریش کے کافروں نے کسی کو عاصم کی لاش پر بھیجا کہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر لائے جس کو وہ کاٹ نہ سکے۔ حضرت عاصم (رض) نے بدر کے دن قریش کے سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عاصم کی لاش پر بھڑوں کا چھتہ بھیج دیا۔ انھوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کو بچا لیا وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب یستأسر الرجل) مسائل : 1۔ سچا ایمان نصیب ہوجائے تو آدمی دنیا کی تکالیف کی پروا نہیں کرتا۔ 2۔ مشکل اور مصیبت کے وقت انسان کو اللہ تعالیٰ سے صبر اور استقامت مانگنا چاہیے۔ 3۔ ہر انسان نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے ایمان کی سلامتی اور اس پر استقامت طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: مواحد لوگوں پر مشرکین کے مظالم : 1۔ فرعون قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ (البقرۃ:49) 2۔ فرعون مومنوں کو کئی طرح کے عذابوں میں مبتلا کرتا تھا۔ (الاعراف :141) 3۔ فرعون نے موحد ین کو ٹانگ اور بازو کاٹنے کی دھمکی دی۔ (الاعراف :124) 4۔ فرعون نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کھجور کے تنوں پر پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ (طہٰ:71) 5۔ فرعون نے اپنی موحدہ بیوی کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی تکالیف دیں۔ (التحریم :11)