قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ
قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ یہ تو بڑا بھاری جادوگر (58) ہے
فہم القرآن : (آیت 109 سے 122) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزہ کا مطالبہ، معجزہ سامنے آنے پر فرعون کے ساتھیوں کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام اور ان کا چیلنج۔ سورۃ الشعراء کی آیت 16تا 33میں بیان ہوا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اپنی نبوت کا ثبوت دیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اخلاقی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ ہم نے تیری پرورش کی اور تو عرصہ درازتک ہمارے ہاں ٹھہرا اور پھر تو نے ایک ایسا کام کیا جو تجھے اچھی طرح یاد ہے یعنی تو نے ہمارے ایک شخص کو قتل کیا۔ کیا ہمارے احسانات کا تو انکار کرتا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت بردباری اور بہترین انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ہاں! نادانستہ طور پر مجھ سے آدمی مر گیا تھا۔ جس کی وجہ سے میں تمھارے خوف سے بھاگ نکلا۔ اب اللہ نے مجھے تمھارے پاس رسول بناکر بھیجا ہے۔ جہاں تک آپ کے مجھ پر احسان کا تعلق ہے کیا اس کا بدلہ یہ ہے کہ آپ میری پوری قوم کو غلام بنا رکھیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے دلائل طلب کیے جس کا جواب دیتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو پیدا کرنے والا اور ہر جاندار کو اس کی روزی مہیا کرنے والا ہے وہ تمھارا اور تم سے پہلے لوگوں کا رب ہے بشرطیکہ تم توحید کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرو۔ اس پر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کا استہزاء اڑاتے ہوئے اپنے درباریوں کو کہا کہ جو تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہے وہ تو پاگل ہے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو الٰہ مانا تو میں تجھے جیل خانہ میں ڈال دوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا واضح دلائل کے باوجود تم ایسا کرو گے تو اس نے مجبور ہو کر کہا اچھا پھر اپنی صداقت کی دلیل پیش کرو۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی صداقت کی تائید میں عصا اور یدبیضاء کے معجزے پیش فرمائے۔ جس پر فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا کہ تم تو بہت بڑے جادو گر ہو اور جادو کے ذریعے تم ہمیں اقتدار اور ہمارے ملک سے بےدخل کرنا چاہتے ہو۔ ہم تمھارے مقابلہ میں اپنے جادوگر لائیں گے۔ سورۃ طٰہٰ، آیت : 58تا 60میں بیان ہوا ہے کہ مقابلہ کے لیے انھوں نے قومی تہوار کا دن اور صبح کا وقت مقرر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس عہد کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ سورۃ الشعراء، آیت : 36تا 44میں تفصیل یہ ہے کہ پھر انھوں نے ملک کے تمام شہروں سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون کے حق میں پرزور نعرے بازی کی کہ ” فرعون کی جے“ (فرعون زندہ باد) اور اس کے ساتھ ہی جادوگروں نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا۔ فرعون نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ انعام پانے کے ساتھ میرے مقرب ہوجاؤ گے۔ (الاعراف :114)۔ یعنی اجر تو معمولی بات ہے۔ تم ہمیشہ کے لیے میرے اقتدار میں شریک ہوگے۔ یہی دین اور دنیا دار کی سوچ میں فرق ہے جس کا جادوگروں نے مظاہرہ کیا کہ ہمیں دنیا میں کیا ملے گا؟ پھر اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ہم اپنے علم و ہنر کا مظاہرہ کریں یا آپ کرتے ہیں ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پہلے تم کرو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر سانپ اور اژدہا بن کر دوڑ نے لگیں۔ جس سے لوگ زبردست خوف زدہ ہوئے۔ کیونکہ قرآن بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے سحر عظیم کا مظاہرہ کیا جس سے لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جوابی حملہ اور جادوگروں کا ایمان لانا : سورۃ طٰہٰ، آیت : 67تا 69میں بیان ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ڈرنے کی ضرورت نہیں اپنا عصا زمین پر پھینک یہ سب کو کھا جائے گا اور جادو گرجہاں بھی ہوں کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہاں بیان فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ آپ اپنا عصا زمین پر پھینکیں جو نہی عصا زمین پر پھینکا گیا تو اس نے ان کے کیے دھرے کو نگل لیا۔ اس طرح حق ثابت اور بلند و بالا ہوا اور باطل ناکام اور نامراد ہو کر ذلیل ہوگیا۔ جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) کی حق و صداقت دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے کیونکہ ملک بھر کے نامی گرامی جادوگروں کو شکست دینا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔ جادوگر یہ حقیقت پوری طرح سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے فرستادہ ہیں وہی خالقِ کل اور مالک حقیقی ہے۔ اسی کے سامنے آدمی کو سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے اسی بات کا اقرار اور اظہار کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے مزید وضاحت بھی کردی کہ فرعون پر نہیں جو رب ہونے کا جھوٹا دعوے دار بلکہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لائے جو پوری کائنات کا رب ہے۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی کو ہرگز شبہ نہ رہے۔ مسائل : 1۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ملک بھر کے جادوگر اکٹھے کیے۔ 2۔ جادو گروں کے سامنے دین کا مشن نہیں تھا اس لیے انھوں نے دنیا کے اجر کا مطالبہ کیا۔ 3۔ جادو سب سے پہلے انسان کی نظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ 4۔ حق ہمیشہ دلائل کی بنیاد پر بلند و بالا رہتا ہے۔ 5۔ آدمی کو حقیقت سمجھ آجائے تو اسے کھلم کھلا اس کا اعتراف اور اظہار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام : 1۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلے دلائل لے کر آئے تو قوم نے ان پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص :36) 2۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء :43) 3۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف :109) 4۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (ﷺ) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس :76) 5۔ کفار نے کہا یہ نبی نہیں جادو گر ہے۔ (یونس :2) 6۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص :4) 7۔ ظالموں نے کہا کیا ہم جادوگر کی اتباع کریں ؟ (الفرقان :8) 8۔ آپ سے پہلے جو بھی نبی آیا اسے جادوگر کہا گیا۔ (الذاریات :52) 9۔ مشرکین قرآن مجید کو جادو قرار دیتے تھے۔ (الاحقاف :7)