وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ
اور ہم نے ان میں سے اکثر کو کسی بھی عہد و پیمان کا پابند نہیں پایا، اور ان میں سے اکثر کو فاسق پایا
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کے دلوں پر مہر ثبت ہونے اور ان کی ہلاکت کا سبب، اللہ کے ساتھ ان کی عہد شکنی تھی۔ کفار کی ہلاکت اور ان کی گمراہی کا سبب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے ان کی اکثریت کو نافرمان اور بد عہد پایا تھا۔ عہد سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو روز آفرینش اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے لیا تھا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں یا نہیں؟ جس کی تفسیر اسی سورۃ کی آیت 172میں بیان کی جائے گی ان شاء اللہ عہد سے مراد وہ اقرار اور عہد ہے جو آدمی ایمان لاتے ہوئے کلمۂ شہادت کے الفاظ میں اقرار کرتا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے والا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میرا کوئی خالق، مالک اور معبود نہیں، محمد رسول اللہ (ﷺ) میرے رہنما اور مقتدا ہیں، میں انھی کی اتباع میں زندگی بسر کروں گا۔ اس عہد کے تحت وہ عہد و اقرار بھی شامل ہیں جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں یہ تین قسم کے عہد و اقرار ہیں جن پر پورا اترنا انسان کی ذمہ داری ہے اگر کوئی جان بوجھ کر عہد شکنی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے باز پرس ہوگی۔ یہاں انسانوں کی اکثریت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو عہد شکن اور نافرمان ہی پایا ہے۔ جو لوگ جمہوریت کو حق و باطل، صحیح اور غلط کا معیار قرار دیتے ہیں۔ انھیں اس اصول پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ حق و باطل، غلط اور صحیح کا معیار لوگوں کی اکثریت نہیں بلکہ اس کا معیار مسلمہ اقدار اور قرآن و سنت کے اصول ہیں۔ لوگوں کی اکثریت تو لکیر کی فقیر ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (ﷺ) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ أحمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) اپنے ہر خطبے میں یہ فرماتے جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ مسائل : 1۔ لوگوں کی اکثریت گمراہ اور فاسق ہوا کرتی ہے۔ 2۔ گمراہوں کا انجام آخرت میں بد ترین ہوگا۔