قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ اگر کوئی جبریل کا دشمن (١٥١) ہے (تو اسے کچھ نقصان نہیں) اس لیے کہ اس نے قرآن آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور مومنین کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے
فہم القرآن : (آیت 97 سے 98) ربط کلام : اہل کتاب کے دیگر حیلوں کے ساتھ یہ حیلہ اور بہانہ بھی تھا کہ جبریل ہمارے ذاتی دشمن ہیں جس کی وجہ سے ہم رسول اللہ {ﷺ}کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے۔ یہاں اس بات کا جواب دیا گیا ہے۔ بیّن حقائق اور ٹھوس دلائل کا مسلسل انکار کرنے کی وجہ سے یہود اس قدر بد حواس ہوچکے تھے کہ وہ نبی {ﷺ}سے پوچھتے ہیں اچھا یہ بتائیں کہ آپ پر کون سا فرشتہ وحی لاتا ہے؟ آپ {ﷺ}نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) جو ملائکہ کا سردار، امانت دار اور اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پسندیدہ اور مقرب فرشتہ ہے۔ یہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات لایا اور اسی نے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری۔ یہودی جبریل امین (علیہ السلام) کا نام سنتے ہی کہنے لگے اب تو آپ پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جبرائیل تو ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے ہمارے بزرگوں کے سروں پر کوہ طور رکھا تھا اور یہی ہمیں مشکلات اور عذاب میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ ہاں اگر میکائیل ہوتے تو کچھ غور کیا جاسکتا تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جبرئیل امین ہو یا میکائیل پیغام رسانی کا سلسلہ ہو یا قہر الٰہی کا معاملہ۔ جو کچھ بھی جبرائیل امین نے کیا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا ہے۔ جبرائیل امین سے دشمنی دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام ملائکہ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے کیونکہ حضرت جبرائیل اور ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ اگر تمہارے آباء واجداد پر عذاب نازل ہوا تو یہ ان کے اعمال کا نتیجہ تھا اور تم اسی روش پر چلتے رہے تو تمہارا انجام ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہودی اپنے خبث باطن کی وجہ سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ جب جبرائیل امین کو مشکوک ثابت کردیں گے تو محمد {ﷺ}کی نبوت کا معاملہ از خود ختم ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں بھی یہودیوں کی طرح کچھ نام نہاد مسلمان اہل بیت کا نام لے کر مختلف بہانے بنا کر خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کرام کی تحقیر کرتے ہیں تاکہ اسلام کی پوری تاریخ کو مسخ کردیا جائے۔ کچھ لوگ حدیث کے ذخیرہ کو مشکوک بنانے کی سعی لاحا صل میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں۔ قرآن ہی کافی ہے۔ اسی سازش کا تسلسل ہے کہ اسلام دشمن لوگ چند علماء کو نشانہ بنا کر علمائے حق کو بدنام کرتے ہیں تاکہ دین کے سپوتوں کو لوگوں کی نظروں میں حقیر اور مشکوک کردیا جائے جس بنا پر لوگ از خود اسلام سے دور ہوجائیں گے۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا جارہا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ قرآن آپ {ﷺ}کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔ جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور تسلیم و رضا اختیار کرنے والوں کو ہدایت اور خوشیوں کا پیغام دیتا ہے۔ کیونکہ جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام رساں اور نمائندہ ہے کسی کے نمائندہ کے ساتھ دشمنی اصل اتھارٹی کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہوتی ہے جس کا دفاع یا بدلہ لینا اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے اسی بنیاد پر نبی محترم {ﷺ}نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان {رض}کے لیے بیعت لی تھی اور اسی وجہ سے آپ نے اردن میں موتہ کے مقام پر تین ہزار کا لشکر جرار حضرت زید بن حارثہ {رض}کی زیر کمان بھیجا۔ کیونکہ شرجیل بن عمرو غسانی نے آپ کے نمائندے حارث بن عمیر ازدی {رض}کو شہید کردیا تھا جو اس زمانے میں اعلان جنگ سے بڑھ کر اقدام تصور کیا جاتا تھا لہٰذا اس کا بدلہ لینا آپ {ﷺ}نے اپنی ذمہ داری سمجھی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حضرت جبریل کے ذریعے جناب محمد {ﷺ}کے قلب اطہر پر نازل کیا۔ 2۔ قرآن مجید مومنوں کو دنیا و آخرت میں خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ 3۔ انبیاء، ملائکہ، میکائیل اور حضرت جبریل امین سے دشمنی رکھنا اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے۔ 4- جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ تفسیر بالقرآن : جبریل امین (علیہ السلام) کا مرتبہ ومقام : 1۔ جبریل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر :21) 2۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم :8) 3۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم :5) 4۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار ہیں۔ (الشعراء :193) 5۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ {ﷺ}کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97) 6۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا :38) 7۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر :4)