لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ہم نے نوح (46) کو ان کی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا، تو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم ! تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
فہم القرآن : (آیت 59 سے64) حضرت نوح (علیہ السلام) : آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ ( ادریس علیہ السلام) بن یرد بن مھلا ییل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام)۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے عرض کی کہ کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ پھر اس نے یہ سوال کیا کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا دس قرن (صحیح ابن حبان :6157) قرن سے مراد اہل علم نے ایک نسل یا ایک صدی لی ہے اگر ایک نسل مراد لی جائے تو آدم (علیہ السلام) کی وفات اور نوح (علیہ السلام) کی پیدائش کے درمیان ہزاروں سال کی مدت بنتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی عمر صدیوں پر محیط ہوا کرتی تھی جس بنا پر حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ثابت ہوتا ہے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے جس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت اور ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر 4920، طبری تفسیر سورۃ نوح، آیت : 23، 24) سورۃ العنکبوت آیت 14میں بیان کیا گیا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح میں یہ وضاحت فرمائی گئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر :10) حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ برا اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ ( نوح 25تا27) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کانشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت 37تا39) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت 11، 12 اور سورۃ المؤمنون، آیت 27میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی خسارہ پانے والوں میں ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : 45تا48) قوم کا جواب اور الزامات : اے نوح (علیہ السلام) تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ تیرے ماننے والے عام اور سطحی قسم کے لوگ ہیں۔ تمھیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور ہم تمھیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب اور قوم کا جواب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا۔ نہ میں ایمان والوں کو اپنے سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو کہ اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود :123) قوم : تم ہماری طرح کے انسان ہو کر ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے باپ دادا سے یہ باتیں کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنون : 24، 25) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں (الشعراء :112) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء :116) قوم سے خطاب : اے میری قوم میں تمھیں کھلے الفاظ میں انتباہ کر رہا ہوں صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ شرک اور اللہ کی نافرمانی سے بچو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرما کر تمھیں مہلت دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اجل کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ کاش تم جان جاؤ۔ (نوح : 2تا4) قوم کا جواب : ہم اپنے معبودوں اور ود، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ( نوح، آیت :24) حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد : میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے تیری نافرمانی میں انھیں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں اور شرارتیں کیں۔ (نوح : 5تا9) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا اور اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔ ( ھود :32) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عذاب تم پر ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔ (ھود :33) نوح (علیہ السلام) کی بد دعا : حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے باری تعالیٰ میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے بس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ (القمر :10) اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔ (نوح : 25، 10، 24) اللہ تعالیٰ کا فرمان : اے نوح ظالموں کے بارے میں اب ہم سے فریاد نہ کرنا یقین رکھ کہ اب یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ھود :3) عذاب الٰہی سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم : اے نوح ! جو کچھ یہ کر رہے ہیں ان پر غم نہ کرو اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ۔ اب ان کے بارے میں ہمارے ساتھ بات نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہونے والے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کشتی بنا رہے تھے۔ تو قوم ان سے مسلسل مذاق کرتی رہی جس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے فرماتے کہ آج تم مجھے ہنسی مذاق کرتے ہو کل ہم تمھیں اس طرح ہی مذاق کریں گے عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : 37تا40) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : 40تا42) عذاب کی ہو لناکیاں : ہم نے موسلا دھار بار ش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔ (القمر : 11، 12) جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔ (المؤمنون :27) جب پانی پوری طغیانی پر آیا۔ (احقاف :11) مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے 15فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ امام طبری سورۃ الحاقۃ آیت 11کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سیلاب اس قدر بے انتہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک کوئی جاندار چیز باقی نہ رہی۔ تفسیر بالقرآن : حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (المومنون :23) 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت :76) 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی کا نزول فرمایا۔ (النساء :163) 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم :58) 5۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام :84) 6۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ستائیس بار تذکرہ ہوا ہے۔