سورة الاعراف - آیت 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور وہی (44) ہے جو ہواؤں کو رحمت کی بارش سے پہلے خوشخبری کے طور پر بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں پانی سے بوجھل بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اسے خشک اور قحط زدہ بستی کی طرف روانہ کردیتے ہیں، پھر اس میں پانی برساتے ہیں اور اس میں ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں، ہم مردوں کو بھی اسی طرح زندہ کریں گے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : رابط کلام : یہ اللہ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ وہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل بارش کے نزول سے پہلے ہی مسرور ہوجائیں اور اپنا سازو سامان سنبھال لیں۔ پھر وہ بارش سے مردہ زمین، مرجھائی فصلوں اور مضمل طبیعتوں کو شاداں اور فرحان کردیتا ہے۔ بارش کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ دعا کے بعد اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے لہٰذا دعا توبہ اور عاجزی کے ساتھ مانگا کرو۔ جو شخص توحید کے منافی عقیدہ رکھتا اور اللہ کے سوا غیروں سے مانگتا ہے وہ زمین میں فساد کا موجب بنتا ہے اب پھر توحید کے آفاقی دلائل کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ صرف ایک ہی ذات کبریا ہے جو کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے اسی کے حکم سے ہواؤں اور فضاؤں میں تبدیلی آتی ہے یہ اسی کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہوجائیں اور بارش آنے سے قبل اپنا سازوسامان سنبھال لیں۔ گھٹا ٹوپ ہوائیں نہ معلوم بادلوں کو کہاں سے کہاں اٹھائے ہوئے ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوتا ہے وہیں بارش کا نزول ہوتا ہے اس طرح اجڑی ہوئی بستیاں تروتازہ ویران کھیتیاں شاداب اور نہ صرف مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے بلکہ فضا مہلک جراثیم سے پاک اور درختوں کا پتہ پتہ گردوغبار سے صاف ہوجاتا ہے ہر سو سہانا موسم جس سے روحانی اور جسمانی طور پر تسکین پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ میوہ جات سے اپنے بندوں کو لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے بارش کی مثال سے استدلال پیش کرتے ہوئے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ لوگو! غور کرو کہ اگر مردہ زمین کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں مدتوں پڑے ہوئے بیج باغ وبہار کا منظر پیش کرسکتے ہیں تو کیا انسان کو پیدا کرنا خالقِ کل کے لیے مشکل ہے؟ ہرگز نہیں اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا فرمائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْ نَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ] (وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ )[ متفق علیہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ روز قیامت اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ بارش سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ 2۔ ہوائیں بادلوں کو لاتی ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بارش سے انگوریاں پیدا فرماتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرمائے گا۔ 5۔ انسانوں کی نصیحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب کچھ پیدا فرمایا ہے۔