يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
اے آدم کے بیٹو ! شیطان تمہیں گمراہ (16) نہ کردے، جس طرح اس نے تمہارے باپ ماں کو جنت سے نکال دیا تھا، ان کے لباس الگ کردئیے تھے تاکہ دونوں کے سامنے ایک دوسرے کی شرمگاہ ظاہر کردے، بے شک وہ اس کا گروہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ہو، بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان سے محروم ہوتے ہیں
ف 6 اور ایسے دشمن سے تو بہت زیادہ محتاط اور چو کنا رہنا چاہیے جو ہم کو دیکھے مگر ہم اس کو نہ دیکھ پائیں اس آیت سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنوں کے دیکھنا ممکن نہیں ہے مگر یہ استدلال کصحیح نہیں ؛ ہے کہ کیونکہ اگر کسی وقت ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ہم انہیں نہ دیکھ رہے ہوں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں ہے، یہ قضیتہ مطلقتہ لا دائمتہ لہذا صحیح یہی ہے کہ جنوں کی رؤیت ممکن ہے احادیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کو دیکھا ہے۔،( فتح القدیر) اور زکو ٰۃ رمضان کی نگرانی کے قصہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابور ہریر (رض) نے ایک جن کو پکڑ لیا اور صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آج رات میری نماز قطع کرنے کے لیے میرے پاس سرکش جن آگیا اگر میرے بھائی سلمان ( علیہ السلام) کی دعانہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اروصبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے نیز یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے نصیین کے جنوں کو دیکھا ہے اب رہا امام شافعی کایہ فرمانا کہ جو شخص جنات کو رؤیت کا دعوی ٰ کرے اس کی شہادت مردود ہے تو اس سے امام شافعی کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کی اصلی شکل پر دیکھنے کا دعو یٰ کرے (قر طبی روح )