سورة البقرة - آیت 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور جب ان کے لئے اللہ کی طرف سے ایک کتاب آئی جو ان کے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کر رہی تھی۔ (تو اس کا انکار کربیٹھے) حالانکہ اس کے قبل کافروں پر غلبہ کی تمنا (١٤١) (اسی کتاب کے ذریعہ) کرتے تھے۔ تو جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان گئے تو اس کا انکار کردیا، پس اللہ کی لعنت (١٤٢) ہو کافروں پر

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 :نبی (ﷺ) کی بعثت سے پہلے یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوئے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ نبی آخرالزمان جلد ظاہر ہوں تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں اس صورت میں يَسْتَفْتِحُونَکے معنی نصرت اور غلبہ حاصل کرنا ہو نگے۔( ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے معنی خبر دینے کے ہوں یعنی وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب نبی آخرالزمان ظاہر ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر تم پر غالب آئیں گے چنانچہ عاصم بن عمربن قتادہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے عرب کے قبائل میں ہم سے زیادہ رسول اللہ (ﷺ) کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا اس لیے کہ ہم یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے اور وہ اہل کتاب تھے اور ہم بت پرست وہ ہم سے کبھی مغلوب ہوتے تو کہتے کہ ایک نبی کی بعثت ہونے والی ہے اور اس کا زمانہ آپہنچا ہے اس کے ساتھ مل کر ہم تمہیں عاد وارم کی طرح قتل کریں گے۔ جب رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت ہوئی ہم نے آنحضرت (ﷺ) کی پیروی اختیار کرلی اور یہ یہودی منکر ہوگئے۔اللہ کی قسم یہ آیت ہمارے اور ان یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی( ابن جریر، فتح القدیر) بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے يَسْتَفْتِحُونَکے یہ معنی نقل کیے ہیں کہ آنحضرت (ﷺ) کے ظہور سے پہلے جب یہو دیوں کا عرب سے مقابلہ ہوتا تو وہ آنحضرت (ﷺ) کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کہتے کہ اے اللہ ہم بحق نبی امی تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں دشمنوں پر غلبہ عنایت کر مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔ قرطبی نے ابن عباس سے نقل کی ہے۔ (مستدرک حاکم مع تلخیص ج 2 ص 263)