وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال (152) کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو اس کے حق میں بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائے، اور ناپ اور تول انصاف کے ستھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت بھر ہی ذمہ داری عائد کرتے ہیں، اور جب بھی کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کہو چاہے اس کی زد کسی رشتہ دار پر ہی کیوں نہ پڑے، اور اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کرو، اللہ نے تمہیں ان باتوں کا حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
ف 10 یعنی وہ بالغ ہوجائے اور اس میں اپنے معاملات کو نپٹا نے کی خود صلاحیت پیدا ہوجائے، دیکھئے سورۃ نسا آیت 6) ف 11 لہذا اگر پورا اور اپنے کی کوشش کرے مگر بھول چوک سے غلطی کر بیٹھے تو اس سے بار پرس نہ ہوگی یہی معنی الا وسعھا کے ہیں۔ (ابن کثیر ) ف 1 یعنی رشتہ داری یا قرابت عد ل وانصاف میں مانع ہونے پائے اور ہر حالت اور ہر زنا میں عدل وانصاف سے کام لو۔ ( ابن کثیر) ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر ونواہی بجا لوأ بجا لوؤ اور کتان وسنت کے مطابق عمل کرو، اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے سے یہی مراد ہے (ابن کثیر،) یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگ دبہت سے راہیں بناڈالی ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ (رض) سے رایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دائیں اور بائیں کئی لکریں بنائیں اور فرمایا ان میں سے ہرا راہ پر شیطان بیٹھا ہے جو لوگو کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( ابن کثیر )