سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
جن لوگوں نے شرک کیا (148) وہ عنقریب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے، اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا یہاں تک کہ ہمارا عذاب انہیں چکھنا پڑا، آپ پوچھئے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے (کہ اللہ تمہارے اعمال سے راضی ہے) تو اسے ہمارے سامنے ظاہر کرو، تم لوگ صرف ظن و گمان کے پیچھے لگے ہو، اور تم لوگ صرف جھوٹ بولتے ہو
ف 9 یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارالے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود للہ کی مرضی یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انہیں حرام ٹھہرائیں کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے ان اعمال کا صدور ممکن نہ تھا لہذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں لہذا صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو شرک اور محرمات کی صیحت پر بطور دلیل پیش کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ اس کی رضا اور مشروعیت کو مستلزم ہے۔ یہی ان کی سب سے بری غلطی تھی کیونکہ یہ پیغمبروں کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ تنبیہ معتزلہ کے نزدیک مشیت اور ارادہ رضا اور امر کو مستلزم ہیں اور اہل سنت کے نزدیک ان میں استلزام نہیں ہے۔ ( روح المعانی) ف 10 یعنی ان کا یہ عذر قطعی اور بے بنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان کے اسلاف پر ان جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا ،۔ (ابن کثیر )