وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل اور تام ہے، اس کے کلام (112) کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے، اور وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے
ف 12 یہاں کلمہ یا کلمات سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن معجزہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت کی دلیل ہونے کے لیے کافی ہے کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو قسم کے ہیں اخبار اراحکام یہاں صدق کا تعلق اخبار سے ہے اور عدل کا حکام سے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تمام خبریں خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو یا گزشتہ وقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے وہ سب پوے طوپر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عل وانصاف پر مستمل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا تر میم کی گنجائش نہیں ہے ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں پھر ان شیطان وساوس یا عقلی شہبات کی کوئی کنجائش باقی نہیں کبیر) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلہ میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں داخل دے رہے ہیں۔ ف 13 یعنی نہ تو اس قسم کے شہبات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے اوامر نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے یا جیسے توراۃ وانجیل میں تحریف ہوئی قرآن میں ہو سکے گی۔ (رازی)