بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ہاں (وہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے) جنہوں نے گناہ (١٢٧) کیا، اور ان کے گناہوں نے انہیں گھیر لیا، وہی لوگ جہنمی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے
ف 5 اس آیت میں سیئہ اور خطیعتہ سے مراد بعض مفسرین نے شرک، بعض نے گناہ کبیرہ اور بعض نے ایسے صغائر مراد لیے ہیں جو کبا ئر کا موجب بن سکتے ہیں ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تمام اقوال تقریبا ہم معنی ہیں اور حدیث میں ہے : کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچتے رہوں اس لیے کہ یہ جمع ہو کر انسان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں ان آیات میں یہود کے نظریہ کی تردید کی ہے کہ آخرت میں فلاح ونجات اور عذاب تمہاری خواہش کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ اعمال سیئہ اور حسنہ کے مطابق فیصلہ ہوگا واحاطت بہ خطیئتہ کے معنی یہ ہیں کہ جس کے پاس قیامت کے دن کوئی نیکی بھی نہ ہوگی لہذا اس سے مراد کافر یا مشرک ہیں ورنہ گنہگار مومن جنہوں نے شرک نہ کیا ہوگا آخر سزا پاچکنے کے بعد شفاعت کی بنا پر عذاب سے نکال لیے جائیں گی جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے اکثر صحابہ و تابعین اور اہلسنت والجماعہ کا یہی مسلک ہے۔ (قرطبی۔ رازی) عمل صالح کے لیے دیکھئے آیت 25۔