وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
اور ان لوگوں نے اللہ کی حقیقی قدر و منزلت (85) کو نہیں پہچانا، جب کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے، آپ کہئے کہ وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت کا ذریعہ تھی، تم نے اس کے کچھ اوراق بنا رکھے ہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو، اور اس کا زیادہ حصہ چھپاتے ہو، اور تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا (86) جو تم اور تمہارے آباء و اجداد نہیں جانتے تھے، آپ کہئے کہ اللہ نے اتاری تھی، پھر انہیں چھوڑ دیجئے، اپنی مخالف اسلام باتوں سے کھیلتے رہیں
ف 6 حضرت ابن عباس اور بعض دیگر تابیعن نے کہا ہے کہ اس سے قریش مراد ہیں جو کہ رسالت کے منکر تھے۔ (ابن کثیر) بعض نے گزشتہ سلسلئہ کلام اور بعد کی جوابی تقریر کو قرینیہ بناکرلکھا ہے کہ یہ علمائے یہود کا دعویٰ تھا جسے کفار قریش دلیل بناکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے انکار کیا کرتے تھے یہودی پڑھے لکھے تھے اور ان کے پاس گزشتہ انبیا کا علم بھی تھا اس لیے کفار قریش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے اکثر ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے ہی موقع پر انہوں نے یہ بات کفار قریش سے بطور جواب کہی اور ضد اروہٹ دھرمی میں اندھے ہوکریہ بھی بھول گئے کہ اس کی زد کا براہ راست ان سے خطاب کر کے جواب دیا ہے (ملخص المنار) مگر ابن جریر نے پہلے قول کو پسند کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، ولاول اضح باقی رہا قل من انزل الکتاب الذی۔۔ الخ تو یہ بھی قریش پر الزام ہے کیونکہ وہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی رسالت کے قائل تھے اور پھر صمنا یہود سے خطاب ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی تم نے توارۃ کے الگ الگ حصے بنا رکھے ہیں جو حصہ تمہارے مطلب کا ہے اسے تو ظاہر کرتے ہو اور جو حصہ تمہارے خود ساختہ عقائد اور من مانی کاروائیوں کے خلاف پڑتا ہے جسے رجم کا مسئلہ اور انبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق آیات) اسے چھپاتے ہو، ف 8 یعنی بہت سے احکام اور قصے اور بہت سے شریعت کے مسئلے اور حکمت کی باتیں جن کا توراۃ میں ذکر نہیں تھا۔ (کذافی الوحیدی) یا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ توراۃ کے ذریعے تمہیں وہ کچھ سکھا یا گیا جس کا تمہیں اور تمہارے باپ دادا کو کوئی علم نہ تھا اس صورت میں یہ تورات کی تیسری صفت ہوگی (کبیر) ف 9 اس کے یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہیں۔ ( ابن کثیر) ف 10 یعنی پڑے بک بک کرتے رہیں اور بچوں کی طرح اپنے کفریت سے کھیلتے رہیں۔ (وحیدی) عنقریب مرنے کے بعد ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی، ( ابن کثیر )