وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ ان لوگوں کو نہ بھگائیے (51) جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں، آپ کو ان کا حساب نہیں دینا ہے، اور نہ انہیں آپ کا حساب دینا ہے، پس آپ انہیں اگر بھگا دیں گے تو ظالموں میں سے ہوجائیں گے
ف 7 بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کی جوابد ہی خود کرنے ہے مطلب یہ ہے کہ ان بے چاروں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ انہیں اپنے سے دوسر کریں ف 8 یعنی خدا کے طالب اگرچہ غیریب انہی کی خاطر مقدم ہے۔ (موضح ) جیساکہ معلوم ہو کہ مکی زندگی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرنے والے زیادہ تر غلام موالی اور عام بے بس اور بے کس قسم کے لوگ تھے، قریش کے بڑے بڑے سردار کھاتے پیتے لوگ نبی صلعم کو طنعہ دیا کرتے تھے کہ تمہارے ساتھی اس قسم کے گھٹیا طبقہ کے لوگ ہیں۔ اگر ان کو اپنے پاس نہ بیٹھے دیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنیں گے۔ اس بارے میں متعدد روایات ثابت ہیں مثلا حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ قریش کے چند سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم کے پاس سے گزرے، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صہیب (رض) خباب (رض) عمار (رض) اور ان جیسے اور غیریب قسم کے لوگ بیٹھے تھے کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم سے یہی لوگ ملے ہیں۔ ؟َ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہم سے اپنا فضل کیا ہے کیا ہم ان کے پیچھے چلنے والے ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنے پاس سے دفع کریں تو شاید ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بات سے لیں اسی کے بارے یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر، ابن کثیر)