فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ
پھر جب انہوں نے اس چیز کو بھلا (45) دیا جس کے ذریعہ انہیں اللہ کی یاد دلائی گئی تھی، تو ہم نے ان کے اوپر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جو انہیں دی گئی تھیں خوب خوش ہونے لگے، تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، پھر حسرت و یاس ان کی قسمت بن گئی
ف 3 یعنی انہیں مہلت کے طور پر ہر طرح کی نعمتیں دیں ( سلفیہ) ف 4 یعنی اچانک ایسا عذاب آیا کہ وہ اپنا تمام عیش و آرام بھول گئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی اور اسی یاس ونا امیدی کی حالت میں تباہ وبرباد کردیئے گئے عقل مند آدمی کو چاہیے کہ جن سختی اور مصیبت آئے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر برے کاموں سے توبہ کر کے ورنہ غفلت بڑھتی جائے گی اور یکباری گی ایسی سخت پکڑ ہوگی کہ تو بہ کا موقع بھی نہ ملے گا۔ () مسند احمد) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھوں جسے اس کی نافرمانیوں کے باو جود اللہ تعالیٰ ہر چیز دے رہا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے تو سمجھو کہ اللہ اسے ڈھیل دے رہا ہے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (کذافی الو حیدی )