قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
آپ پوچھئے کہ کس چیز کی شہادت (22) سب سے بڑی ہے، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ اللہ ہے، اور یہ قرآن مجھے بذریعہ وحی دیا گیا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں اور ہر اس شخص کو ڈراؤں جس تک اس قرآن کا پیغام پہنچے، کیا تم لوگ واقعی اس بات کی گواہی دو گے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں؟ آپ کہیے کہ میں تو ایسی گواہی نہیں دیتا ہوں۔ آپ کہیے کہ وہ اللہ اکیلا معبود ہے، اور میں بے شک ان معبودوں سے اظہار براءت کرتا ہوں جنہیں تم لوگ اللہ کا شریک بناتے ہو
ف 10 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت روسا اہل مکہ کے جواب میں ہے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صدق بنوت کی شہادت پیش کریں کیونکہ اہل کتاب کہتے ہیں کہ توراۃ میں تمہارے آخری رسول ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس بات کا اللہ گواہ ہے کہ اس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالی، کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا ہے جو اپنے معجز ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے اسی کے پیش نظر فرمایا واوحی الی ھذالقرآن الخ (رازی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی اس سے زیادہ کیا قسم ہوگی۔ ( موضح) ف 11 ومن بلغ سے جمیع عرب عجم یاجن وانس مراد ہیں اور اس سے مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالمگیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (رازی) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم وایران و حبشہ تمام ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی۔ (ابن مرودیہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسے قرآن پہنچ گیا اسے گو یا میں نے اپنی زبان سے پہنچا یا (ابن جریر وغیرہ) قرآن مجید اور حدیث پاک کے احکام عالمگیر اور ناقبل تغیر اور قیامت تک کے لیے ہیں قرآن کے احکام کو عہد نبوع تک محدود رکھنا اور تفییر احوال کے ساتھ تغییر فتویٰ کی آڑ میں قرآن کے نصوص سے گلو خلاصی کرانے کی بہانے ڈھو نڈنا تحریف کے مترادف ہے تغییر احوال سے تغییر فتویٰ کا اصول صرف اجتہادی مسائل تک محدود ہے اور ائمہ کی فقہ اور ان کے قتادیٰ اس بات کی کھلی شہادت ہیں پھر جو لوگ فقہ ائمہ کو دائمی احکام کی حیثیت سے پرانی تقلید کے قائل ہیں بھی غلطی پر ہیں صحیح یہ ہے ائمہ نے اپنے زمانہ کے احوال وظرف کو سامنے رکھکر اجتہادی مسائل مسئبظ اور مرتب کئے تھے ( م، ع) ف 12 یاجن کو تم اللہ کا شریک قراردیتے ہو میں انے بیزار ہوں۔ (وحیدی )