إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب حواریوں نے کہا، اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تمہارا رب ہمارے لیے آسمان سے ایک دسترخوان (139) اتار سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کے اگر تم لوگ اہل ایمان ہو تو اللہ سے ڈرو
ف 7 حواری اللہ و رسول پر ایمان رکھتے تھے جیسا کہ اوپر کی آیت میں مذکور ہے اس لیے ان کا یہ سوال اللہ کی قدرت پر شک کے طور پر نہ تھا بلکہ دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا جیسا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا (ابن کثیر) ف 8 کیونکہ ایسے معجزات تعین کے ساتھ طلب کرنا تحکم اور تعنت کے مترادف ہے ( کبیر) یا یہ کہ اپنے اند تقویٰ پیدا کرو اور اسے مائدہ کے حصول کا ذریعہ بنا و جیسے فرمایا : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا (الطلاق) یعنی جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرمایا ڈرو اللہ سے یعنی بندہ کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزماوے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں اگرچہ خداوند (رب تعالی) بتیری مہربانی فرماتا ہے۔،( از موضح )