يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اللہ تعالیٰ جب (روزِ قیامت) تمام رسولوں (132) کو جمع کرے گا، تو ان سے پوچھے گا کہ تمہیں (تمہاری دعوت حق کا قوموں کی طرف سے) کیا جواب ملا، تو (خوف و دہشت کے مارے صرف اتنا) کہیں گے کہ ہمیں کوئی خبر نہیں، بے شک تو ہی تمام غیبی امور کا جاننے والا ہے ہے
شرائع اور احکام کا ذکر کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیئے تاکہ نافر مانی کرنے والے کو زجر اور تنبیہ ہو (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز پیغمبروں سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا پیغمبروں سے یہ سوال امتوں کو زجر وعلامت کے لے ہوگا۔ ( ابن کثیر) ف 11 یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں جو ہماری زندگی میں انہوں نے دیا اور اسی کے متعلق پیغمبر شہادت بھی دیں گے ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 41، وبقرہ 143) باقی رہا کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں کہاں تک اس پر ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سواکسی کو نہیں پس بحمد اللہ آیات میں تعارض نہیں ہے (کذافی الکبیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ ان کو سنایا جو مفر رور ہیں پیغمبروں کو شفاعت پر تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دتیا اور کوئی کسی کی شفاعت نہیں کرتا (کذافی المو ضح )