سورة المآئدہ - آیت 108

ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ لوگ حقیقتِ حال کے مطابق گواہی دیں، یا ڈریں کہ ہماری قسمیں بھی ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی، اور اللہ سے ڈرو، اور (اس کے احکام پر) دھیان دو، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 اس آیت میں اظہار کو شہادت فرمایا ہے مدعی اظہار کرے یا مدعا علیہ جیسے اقرار کو کہہ دیتے ہیں کہ اس نے اپنی جان پر شہاددت دی (کذافی الموضح ) ف 9 لہذا جھوٹی قسم نہ کھا ؤ اور وصیت میں کسی وارث کی حق تلفی نہ کرو۔ (شوکانی) آیت کی شان نزول میں مذکور ہے کہ ایک مسلمان (بدیل) اور دو نصرانی تیمم داری اور عدوی ایک سفر پر گئے بدیل بیمار پڑگیا اور اس نے اپنے سامان کی فہرست بناکر اس میں رکھ دی اور سامان اپنے نصرانی ساتھیوں کے سپرد کردیا کہ میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ ان نصرانیوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک جام (پیالہ) اڑالیا وہ پیالہ مکہ میں پکڑاگیا ،وارثوں نے آنحضرت (ﷺ) کے حضور دعویٰ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی آخر وراثوں نے قسم کھاکر اس پیالے کی قیمت وصول کرلی ( ملخصا ازا بن کثیر)