يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر (130) کرو، اگر تم راہ راست پر چلتے رہو گے، تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، تم سب کو اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، پس وہ تمہیں تمہارے کئے کی خبر دے گا
ف 1 یعنی شرائع واحکام کی اس قدر و ضاحت اور باربار ترغیب و ترہیب کے باوجود اگر یہ لوگ جہالت پر اصرار کریں تو تم ان کی گمراہی اور جہالت کی پروا نہ کرو خود کو ٹھیک رکھو تو ان لوگوں کی جہالت کا تم پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ (کبیر) بعض نے اس آیت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان بس اپنی نجات کی فکر کرے دوسروں کی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ اس غلظ فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا لوگو ! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا غلط مطلب لیتے ہو میں نے آنحضرت (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ لوگ برائی کو دیکھیں اورا سے بدلنے کی کو شش نہ کریں تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب میں سب کو گرفتار کرلے، (کبیر، ابن کثیر) بس آیت کا مطلب یہ ہے کہ باوجود امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لوگ باز نہ آئیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں (امر بامعروف کرنے واولوں) پر کچھ بوجھ نہیں ہوگا ( ابن کثیر )