لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہاری بے مقصد قسموں (110) پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن جن قسمون کے مطابق تمہارا ارادہ پختہ ہوگا، ان پر تمہارا مواخذہ کرے گا، پس ایسی قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، ویسا ہی مناسب کھانا جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں پہننے کے کپڑے دینا ہے، یا ایک گردن (غلام یا لونڈی) آزاد کرنا ہے، اور جسے ان میں سے کوئی میسر نہ ہو، وہ تین دن روزے رکھے گا، اگر تم قسم کھالو تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے، اور اپنی قسموں کی حفاظت (111) کرو، اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم شکر ادا کرو
ف 7 بعض نے اوسط کے معنی عمدہ کئے ہیں، ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ ج اوسط باعتبار مقدار کے ہے یعنی ہر مسکن کو اک عد (10 چھٹانک) غلے دے دے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو پندرہ صا ع ( 60 مد) کھجوریں دی تاکہ رزے کا کفارہ ادا کرے اور فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی کھانا کہ کھلا دتے نہ کپڑا پہنا سکے اور نہ غلام آزاد کرنے کی طاقت ہو تو دو روزے رکھ لے چاہے پے درپے رکھے اور چا ہے الگ الگ کرکے۔، عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں ج متقا بعات ہے یعنی پے درپے روزے رکھے بعض ائمہ اسی کو اختیار کیا ہے۔ ف 2 یعنی حتی المقدور قسم کھانے سے پر ہیز کرو لیکن قسم کھالو اور پھر اسے توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو حتی المقدور قسم کو پورا کرنے کی کو شش کرو گر جب یہ قسم کسی بہتر چیز کے چھوڑ ن پر ہو تو اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دو جیسا کہ حدیث، میں من حلف علی یمبن فری ٰ غیر ھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر ثم لیکفر من یمبنہ۔ کہ جس نے کسی چیز کے کے متعلق قسم کھائی پھر جب اس کے خلاف کو بہتر سمجھا تو وہ بہتر کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے (کبیر )