قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
ان لوگوں نے کہا، اے موسیٰ ! اس سرزمین میں تو ایک بڑی طاقت ور قوم ہے، اور جب تک وہ لوگ وہاں سے نہیں نکلیں گے، ہم لوگ وہاں ہرگز نہیں جائیں گے، اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور وہاں داخل ہوں گے
ف 6 قوت ایمانی کے کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی مرعبیت کا اظہار کر رہے ہیں ؎( یہ اطلاع فارس کے مقام پر پیش کی گئی) لیکن جس انداز سے بعض تفسیری روایات میں ان لوگوں (جبارین کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ تمام اسرائیلی روایات ہیں جن کو ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا خصوصا عوج بن عنق کا فسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ تھا اور اس کے بعد سے لوگ برابر گھٹ رہے ہیں۔ (بخاری مسلم پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تنتیس ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے (ابن کثیر) ف 7 یعنی ان کو آپ معجزانہ طور پر اس سر زمین سے نکال دیں تو ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔