وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان (32) لیا، اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے، اور اللہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ (33) ہوں، اگر تم لوگ نماز قائم کروگے، اور زکاۃ دو گے، اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے، اور ان کی مدد کروگے، اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہوگے، تو بے شک میں تمہارے گناہوں کو مٹا دوں گا، اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، پس تم میں سے جو کوئی اس (عہد و پیمان) کے بعد کفر کی راہ اختیار کرے گا، وہ یقیناً سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا ہوگا
ف 4 یعنی سمع وطاعت کا یہ عہد سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا مگر انہوں عہد شکنی کی اور ذلت ومسکنت میں گرفتا رہو گئے لہذا مسلمانو تم ان جیسے نہ بنو۔ ( کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک قبیلہ پر ایک سردار خود ہی اس قبیلہ سے مق ر کرنے کا حک دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں اپنے وعہد پر قائم رہنے کی ہدایت کرتارہے بعض مفسرین (رض) نے لکھا ہے کہ یہ نقباان جبارین قوم کی خبر لانے کے لیے مقرر کئے تھے جن کا ذکر آگے آرہا ہے (ابن کثیر) ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی لیلہ اعقبہ میں جب سمع وطاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر اور نقیبہ ہی مقرر کئے تھے (قرطبی)