الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمہارے لئے اچھی چیزوں (18) کو حلال کردیا گیا، اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے، اور تمہارا کھانا (19) ان کے لئے حلال ہے، اور مومن پاکدامن عورتیں (20) اور ان کی پاکدامن عورتیں (21) جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی (تمہارے لئے حلال کردی گئیں) بشرطیکہ تم عقد زواج کی نیت سے ان کا مہر (22) ادا کرچکے ہو، اعلانیہ زنا، یا پوشیدہ طور پر آشنائی کی نیت نہ ہو، اور جو ایمان (23) لانے سے انکار کرے گا، اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے، اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا
ف 1 حاصل یہ کہ اہل کتاب( یہود ونصاریٰ) کا طعام (جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے) مسلمانوں کے لیے حلال ہے بشرطیکہ انہوں نےغیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ ایک یہودی عورت نے آنحضرت (ﷺ) کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری پیش کی اور آپ (ﷺ) نے اس میں سے کھالیا۔۔ اس طرح بعض صحابہ (رض) نے وہ چربی کھائی جو خیبر کی جنگ میں یہودیوں سے حاصل ہوئی تھی مگر جو چیزیں ہماری شریعت میں فی نفسہ حرام ہیں جیسے مردار، خون ،اور سور کا گوشت وغیرہ ان کا اہل کتاب کے دستر خوان پر کھنا بھی حرام ہے ،(قرطبی، ابن کثیر) ف 2 یعنی ان سے نکاح کرنا درست ہے چاہے وہ اپنے دین پر قائم رہیں لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ آزادنش اور آوارہ قسم کی جو انسان کے ایمان کو بھی تباہ کر ڈالیں۔ جمہور کے نزدیک یہاں’’ ٱلۡمُحۡصَنَٰتُ ‘‘سے یہی معنی مراد ہیں تاکہ حشفا وسوء کیلة (ردی کھجور اور برا ماپ) کی ضرب المثل صادق نہ آئے (ابن کثیر) گو یا دوسری مشرک عورتوں سے ان کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور بہت سے صحابہ (رض) نے اس آیت کے تحت کتابی عورتوں سے نکاح کر رکھے تھے مگر حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) صرف’’ موحدہ کتابیہ‘‘ سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ (شوکانی) ف 3 اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا صرف جائز ہے مستحب اور مستحسن نہیں ہے اور یہ کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے اسے اپنے ایمان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی سے متاثر ہو کر اپنے ایمان واخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے (م۔ ع)