وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ، اور اس میں جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ، اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو، اور (حطۃ) (١١١) کہتے جاؤ یعنی ہماری معافی ہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیک لوگوں کو ہم زیادہ دیں گے
ف 2۔ یہ آٹھو اں انعام ہے سابقہ انعامات کا تعلق دنیوی زندگی سے تھا اور اس تعلق دینی زند گی سے ہے۔ اس میں مقام تیہ کی شدتوں سے نجات اور گناہوں کو نجشش کا طریقہ بتلا یا ہے۔ ( کبیر) اس شہر مراد ہے اس بارے میں علمائے تفسیر نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس سے اریحا شہر مرا اد ہے مگر یہ قیاس ہے کیونکہ اسرائیل اس وقت بیت المقدس جارہے تھے اور یہ راستے پر نہیں ہے۔ اور بعض نے مصر فرعون ہی ماد لے لیا جو پہلے قول سے بھی زیادہ مستبعد ہے لیکن زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے جیسا کہ سورت مائدہ میں ہے ( اے میر قوم اس قوم اس مقدس سر زمین میں چلے جاؤ جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ( ابن کثیر) یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہوسکا حالانکہ فبدل کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فورا شہر میں چلے گئے۔ امام رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر دیا گیا ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ حضرت یو شع (علیہ السلام) کے دور نبوت میں یہ حکم ملا ہوجیسا کہ واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے تو مطلب یہ ہے کہ چالیس سال کی صحرا نو ردی کے بعد حضرت یو شع کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتھ ہو اتو ہم نے ان کے حکم دیا کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہونا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت نصر میں فتح پر تسبیح واستغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نماز فتح ( آٹھ رکعات) ادا کی ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ دروازہ جس سے شہر میں داخل ہوئے یعنی گنا ہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے احسان کے معنی اخلاص عمل کے ہیں حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کی حیقیقت کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان نعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ نانہ یراک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گو یا تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ سمجھ کر کہ عبادت کرو کہ وہ ضرور تمہیں دیکھ رہا ہے۔