سورة النسآء - آیت 128

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی جانب سے نفرت یا بے تعلقی (124) کا خوف ہو، تو کوئی حرج نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کرلیں، اور صلح اچھی چیز ہے، اور بخالت انسانی نفوس میں رچا دی گئی ہے، اور اگر تم اچھا سلوک کرو گے اور اللہ سے ڈرو گے تو بے شک اللہ تمہارے کئے کی خوب خبر رکھتا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف4شرارت یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے اس کو حقیر سمجھے اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑدے اسے نان ونفقہ نہ دے مارنے پیٹنے کے لیے بہانے تراشے وغیرہ ف 5 مطلب یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کرلیں اور شرارت یابے پروائ كی کیفیت کو ختم کردیں اس سلسله میں مصالحت کی جو صورت هیں اختیار کرلیں وہ جائز ہے مثلا یہ کہ عورت اپنی باری چھوڑدے مہر کم کردے یا تھوڑے سے نان ونفقہ پر راضی ہوجائے حضرت عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سودہ (رض) ضعیف ہوگئیں اور انہیں یه اندیشہ ہوا کہ آنحضرت (ﷺ) ان کو طلاق نہ دے دیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابو دود۔ ترمذی) بعض نے اس شان نزول میں رافع (رض) بن خدیج اور ان کی بیوی محمد بن مسلمہ كی لڑکی کا قصہ بھی بیان کیا ہے کہ رافع نے ایک جوان لڑکی سے نکاح کرلیا تھا کچھ عرصہ لڑائی جھگڑے کے بعد ان کی بیوی نے اس جوان لڑکی کو اپنے حقوق بخش کر رافع سے صلح کرلی کہ میں تمہاری بیوی بن کر رہنا پسند کرتی ہوں مگر پہلی شان نزول صحیح ہے۔ ( ابن کثیر۔ لباب النقول )