سورة النسآء - آیت 127

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ سے لوگ عورتوں کے بارے میں فتوی پوچھتے (123) ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان کے بارے میں اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے، اور وہ آیتیں فتوی دیتی ہیں جن کی قرآن کریم میں تمہارے لیے تلاوت کی جاتی ہے، ان یتیم بچیوں کے سلسلہ میں جنہیں تم ان کا مقرر شدہ حق نہیں دیتے ہو، اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اور کمزور بچوں کے سلسلہ میں، اور یتیموں کے معاملہ میں عادلانہ رویہ اختیار کرنے کے لیے، اور تم جو بھی بھلائی کرو گے، بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 گویہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کے بارے میں کیا سوال کررہے تھے۔ لیکن اگلی چار آیات جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے اس سوال کا خود بخود پتا چل جاتا ہے۔ تفاسیر میں ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عورتوں کو وارثت اور ان کے متعلقہ چند احکام کے بارے میں استفسار کیا تو یہ آیت نازل ہوئیں۔ (قرطبی) ف 1 یعنی قرآن تم کو حکم دیتا ہے شروع سورت میں یتیم لڑکیوں کے بیان کردو حقوق کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھئے۔ آیت ب 3) ف 2 یہ تر جمہ اس صورت میں ہے جب توغبون کا صلا فی مخذوف مانا جائے ارواگر اس کا صلہ عب مخذ وف ماان جائے تو ترجمہ یوں ہوگا تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سے اس دوسرے ترجمہ کی تا ئید ہوتی ہے زمانہ جاہلیت میں یتیم بچیوں پر دونوں طرح ظلم کیا جاتا ہے تھا۔ ابتدا سورت میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔ (قرطبی) اس آیت کے مطلب میں شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس سورت کے اول میں یتیم کے حق کا ذکر تھا اور فرمایا تھا کہ یتیم لڑکی جس کا کوئی ولی نہ ہو مگر اس کا چچا زاد۔ سو وہ اگر سمجھے کہ میں اس کا حق ادانہ کرسکو تو وہ اس کو اپنے نکاح میں نہ لائے کسی دوسرے سے اس نکاح کر دے اور خود اس کا ولی بن جائے۔ اب مسلمانوں نے ایسی عورتوں کو نکاح میں لانا موقوف کردیا۔ پھر دیکھا گیا کہ بعض اوقات لڑکی کے ولی کو یہی اسے نکاح میں رکھنا بہتر ہوتا ہے اس بنا پر حضرت ﷺ سے رخصت مانگی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اجازت مل گئی اور فرمایا وہ جو کتاب میں منع کیا گیا تھا وہ اس وقت ہے کہ اس حق پورا نہ دو اگر ان کے حق کے بہتری سوچو تو رخصت ہے۔ ( ماخوذ از موضح) ف 3 یعنی ان کے بارے میں بھی اپنے احکام یاد لاتا ہے جو اس سورت کے شروع میں بسلسلئہ میراث دیے گئے ہیں۔ (دیکھئے آیت 10۔12)