سورة البقرة - آیت 54

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، تم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، پس تم اپنے خالق کے حضور توبہ (١٠٧) کرو۔ اور ایک دوسرے کو قتل کرو، یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے، چنانچہ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 : حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس کی صورت یہ تھی کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پر ستش نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جو اس جرم کے مر تکب ہوئے ہیں چنانچہ اس پر عمل شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ اوپر آیت 52، میں جس عفو کی خبر دی گئی ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔ ( رازی۔ قرطبی) ارتد اد کی سزا قتل ہے حدیث میں ہے(مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)کو جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ (ابو دوؤد) ف7: جب مو سٰی (علیہ السلام) مع ستر آدمیوں کے تورات لے کر پلٹے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے پہ باور نہیں كرینگے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں اس پر وہ رجفۃ ( زلزلہ) اور بجلی کی کڑک سے بیہوش ہو کر مرگئے بھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا دسے دو بارہ زندہ ہوئے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) یہاں موت کی تفسیر بے ہوشی سے کرنا تفسیر سلف کے خلاف ہے۔ (سلفیہ)