سورة البلد - آیت 2

وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

درانحالیکہ آپ اس شہر میں اقامت پذیر ہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 12 اللہ تعالیٰ نے پہلے مکہ معظمہ کی قسم کھائی اور آگے بھی İوَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَĬ کی قسم آرہی ہے۔ آرہی ہے۔ درمیان میں بطور جملہ معترضہ نبی (ﷺ)سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن آپ(ﷺ)اس شہر میں آزاد ہوں گے یعنی آپ کے لئے اس میں لڑنا اور کافروں کو قتل کرنا جائز ہوگا حالانکہ یہ حرم ہے اور کسی کے لئے اس میں لڑنا جائز نہیں ہے۔ یہ فتح مکہ کی پیشین گوئی ہے جو 8ھ میں پوری ہوئی۔“ مکہ معظمہ کے متعلق نبی (ﷺ)کا ارشاد ہے :” اس میں لڑنا مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ اور میرے لئے بھی صرف ایک گھڑی یعنی عصر سے مغرب تک کے لئے حلال کیا گیا ہے (پھر اپنی حرمت کی طرف پلٹ آیا) “۔ آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” حِلٌّ “ کے معنی حلال یا مُحِل ہوں یعنی وہ شخص جس پر حرمت کی قید نہ ہو۔ بعض مفسرین نے اس کے معنی حالٌ یا نازل ٌیعنی ” رہنے والا“ کئے ہیں۔ اس سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ ” میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں بحالیکہ آپ(ﷺ)اس میں قیام پذیر رہیں۔“ یعنی یہ شہر خود بھی بڑی فضیلت والا ہے لیکن اس کی فضیلت اس لحاظ سے دو چند ہوگئی ہے کہ آپ(ﷺ)اس میں قیام پذیر ہیں۔