سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
تم کچھ لوگوں کو پاؤ گے (98) جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امن میں رہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی جب بھی انہیں فتنہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اس میں اوندھے منہ پڑجاتے ہیں، پس اگر وہ لوگ تم سے دور نہ رہیں، اور تمہیں پیغامِ صلح نہ دیں، اور اپنے ہاتھ نہ روکے رکھیں، تو انہیں پکڑ لو، اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور ایسے ہی لوگوں کے خلاف ہم نے تمہارے لئے کھلی حجت قائم کردی ہے
ف 6 یعنی ایسے منافقین جو دل سے مشرکوں کے ساتھ ہیں لیکن محض مطلب براری ارموقع شناسی کی خاطر تمہیں اپنے مسلمان ہونے یا غیر جانبدار رہنے کا یقین دلاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ تمہارے خلاف سازش کرتے اور تمہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جا نے دیتے۔ ان سے اسد وغطفان کے بعض قبائل مراد ہیں جو آنحضرت (ﷺ) کے پاس مدینہ آتے اور ریاکاری سے مسلمان ہوجاتے پھر مکہ واپس جاتے تو بت پرستی شروع کردیتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ اگر کنارہ کش نہ رہیں تو ان سے لڑو۔ ( شوکانی۔ کبیر ) ف1یہاں سُلْطَانًا مُبِينًاسے یا تو مراد یہ ہے کہ ان سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے کی تمہارے پاس دلیل موجود ہے وہ یہ کہ بد عہد ہیں کھلے دشمن ہیں ۔موقع ملے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے یا یہ کہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کھلی اجازت ہے (کبیر )