إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا
ان لوگوں کے علاوہ (97) جو ایسی قوم کے پاس پہنچ جائیں، جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو، یا جو تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ ان کے دل تم سے یا اپنی قوم سے جنگ کرنے کے تصور سے تنگ ہوں، اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تمہارے اوپر مسلط کردیتا ہے، پھر وہ تم سے جنگ کرتے، پس اگر وہ تم سے دور رہیں اور تم سے قتال نہ کریں، اور تمہیں پیغام صلح دیں، تو اللہ نے تمہیں ان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی اجازت نہیں دی ہے
ف 2 یعنی اگر یہ منافقین کیس ایسے قبیلے سے اتصال رکھتے ہوں جس کا تم سے معاہد ہوچکا ہے تو تم انہیں قتل نہ کرو کیونکہ معاہدہ کا احترام اور اس کی پابندی لازم ہے آیت کا یہ مفہوم صحیح ہے بعض نے یصلون سے اتصال مراد لیا ہے مگر صحیح نہیں ہے کیونکہ اتصال نسبی قتال کے مانع نہیں ہوتا بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کا استثنا ہے جو کسی معاہد قبیلہ کے جوار میں رہتے یا ان کے حلیف ہوتے، کیونکہ س وقت قبائل عرت دو حصوں میں تقسیم بعض کا معاہدہ مسلمانوں سے تھا اور بعض مشرکین مکہ کے حلیف یا ان کے جوار میں رہتے تھے چنانچہ صلح حدیبہ میں بی یہ شق موجود ہے یہاں ان سے مراد بنو بکر۔ بنو اور خزاعتہ وغیر ہم کے قبائل جو اس وقت قریش کے حلیف تھے۔ ف 3 یہ بھی استثنا کے تحت ہے اور اوجاکم کا عطف یصلون پر ہے ای الا الذین جا و کم اور حصرت صدورھم جا و کی ضمیر سے جملہ حالیہ ہے ای وفد حصرت حمد ورھم حاصل یہ کہ ان لوگوں سے لڑ نا اور ان کو قتل کرناک بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ شوکانی) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل وکرم ہے یہ لوگ اگر تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم (قبیلے) سے۔ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس کے ساتھ مل کرتم سے لڑ نے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ غیر جانبدار نہ رہتے اور اپنی قوم کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ کرتے (کبیر) ای لو شا اللہ لسلطھم علیکم ولو شا اللہ لقاتلو کم (الکشاف) ف 5 یعنی جب تک وہ غیر جانبدار نہ پالیسی پر کار بند رہیں اور تم سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں ان کو کسی طرح تکلیف پہنچانا صحیح نہیں ہے (ابن کثیر )