مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو شخص کوئی اچھی سفارش (92) کرتا ہے، تو اس کی نیکی کا ایک حصہ اسے بھی ملتا ہے، اور جو بری سفارش کرتا ہے، تو اس کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نامہ اعمال میں بھی جاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے
ف 7 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عسیٰ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے کہ عنقریب کفا رکا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔۔ ف 8 اوپر کی آیت میں آنحضرت کو حکم دی کہ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں جو اعمال حسنہ میں میں سے یہاں تبایا کہ آپ ﷺ کو اس پر اجر عظیم ملے گا پس یہاں سفاعت حسنہ سے ترغیب جہاد مراد ہے اور شفاعت سیئہ سے اس کا کار خیر سے رکنا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اشفعر اتوجروا کہ نیک سفارش کرواجر پاو گے۔ (رازی۔ ابن کثیر )