وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
اور جب انہیں امن و خوف کی کوئی خبر ملتی ہے تو اسے پھیلانا (90) شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اگر اسے رسول اور ذمہ داروں کے سپرد کردیتے، تو ان میں سے تحقیق کی صلاحیت رکھنے والے اس کی تہہ تک پہنچ جاتے، اور اگر اللہ کا تم پر فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو چند لوگوں کے سوا تم سبھی شیطان کی اتباع کرنے لگتے
ف 3 امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کی فتح ہوئی ارخوف کی خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوگئی آنحضرتﷺ مسلمانوں کے مختلف سراپا تھے۔ لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں لیکن منافقین اور بے احتیاط قسم کو مسلمان بجائے اسکے کہ انہیں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ یا آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں از خودان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے۔ ان کے اسی شرط حمل کی یہاں مذمت کی جار ہی ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی) ف 4 تعلمہ الذینیستنبطو نہ منھم کا دوسر اترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے تو اسے وہ لوگ جان لیتے جوان میں سے یعنی مسلمانوں سے) تحقیق کی صلا حیت رکھتے ہیں حافظ ابن کثیر شوکانی اور دسرے اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ خبر سن کر از خود اس کی تشیہر کرنے کی بجائے اسے آنحضرت اور آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچادیتے تو وہ اس پر غور وخوض کرکے پہلے یہ فیصلہ کرتے کہ آیا یہ صحیح ہے یا غلط اور آیا اس کی اشاعت کرنی چاہئے یا نہیں ؟ اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے ورنہ روک دیتے۔ اجتماعی زندگی میں اس ہدایت پر عمل نہا یت ضروری ہے ورنہ جماعتی زندگی بے حد نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ ف 5 شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے ہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں ،( موضح)