وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
اور اگر تمہیں اللہ کا کوئی فضل حاصل ہوتا ہے، تو گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کبھی کوئی دوستی تھی ہی نہیں (کہتے ہیں کہ) کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا، تو بڑی کامیابی حاصل کرتا
ف 1 مراد منافقین ہیں اور ان کو ظاہری اختلاط اعتبار سے منکم کہہ دیا ہے مگر مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان سے مراد ضعیف الا یمان ہیں پس منکم اپنے معنوں میں ہے۔ (رازی) یعنی ان کو تمہاری فتح کی خوشی ہے ارونہ تمہیں نقصان پہنچنے کا غم انہیں تو صرف مطلب سے مطلب ہے۔ فتح اوشکست دونوں حالتوں میں اس قسم کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے بالکل اجنبی ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پر آیت کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ جملہ معترضہ ہے اور یا لیتنی الخ لیقولن کا مقولہ ہے (رازی ) اوپر کی آیتوں میں جہاد سے مبطین اور پیچھے رہنے والے اور دوسروں کو روکنے ولے) کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جارہی ہے (رازی) شریٰ یشری کے معنی بیچنا اور خرید نا دونوں آتے ہیں یہاں ترجمہ بیچنا کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اگر اسے خرید نے کے معنی میں لیا جائے تو ّآیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کو نکلیں۔ (فتح القدیر۔ ابن جریر) ف